کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 38
ہوچکا اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا بھی معلوم ہوچکا ہے ۔اب بعض اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا سنئے فتح الباری جلد 10 ص288 میں ہے:وعن الحسن البصري انه يوخذ من طولها وعرضها مالم يفش وعن عطا ء نحوه "حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (تابعی) سے روایت ہے کہ داڑھی کے کاٹنے میں مبالغہ نہ کیاجائے اور اس کےقریب عطا تابعی سے بھی روایت ہے" مولانا احمد علی سہارنپوری مرحوم بخاری جلد 2 ص875 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : "وقال عطاء إن الرجل لو ترك لحيته لا يتعرض لها حتى أفحش طولها وعرضها لعرض نفسه لمن يسخر به وقال نووي والمختار عدم التعرض لها بتقصير ولا غيره كذا في القسطلاني" "عطا فرماتے ہیں :اگر انسان کی داڑھی ا ُترے اور وہ اس کو اپنی حالت پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا طول عرض بہت زیادہ ہوکر قبیح شکل اختیار کرے،تو اس شخص نے خود کولوگوں کے سامنے استہزاء اور تمسخر کے لیے پیش کیا اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مختار یہی ہے کہ داڑھی سے سے کسی قسم کا تعرض نہ کرے نہ کٹانے کے ساتھ نہ کسی اور طرح سے(چڑھانے وغیرہ کے ساتھ) قسطلانی میں اسی طرح ہے۔" نواب صدیق حسن خان مرحوم نے بھی عطاءتابعی [1]کا یہ قول نقل کیا ہے،ملاحظہ ہو:عون الباری لحل ادلۃ البخاری ص303 برحاشیہ نیل الاوطار طبع مصر۔عطا تابعی کے اس قول سے واضح ہے کہ وہ داڑھی بہت زیادہ لمبی چوڑی ہونے کے وقت کٹانے کے قائل ہیں اور وہ مٹھی سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ورنہ معاذ اللہ کہنا پڑے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وغیرہ نے جو صورت اختیار کی تھی ،وہ عطا تابعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قبیح تھی حالانکہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے خاص شاگرد بھی ہیں ۔ رہاحسن بصری اور عطا کا قول وج حسن بصری کے موافق ہے تو اس کامطلب حسن بصری کے دوسرے قول سے واضح ہوگا جو آئندہ عبارت میں آتا ہے۔ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکواۃ جلد 4 ص 492 میں فرماتے ہیں : وفي الإحياء قد اختلفوا فيما طال من اللحية ، فقيل : إن قبض الرجل على لحيته وأخذ ما تحت القبضة فلا بأس به ، وقد فعله ابن عمر وجماعة من التابعين ، واستحسنه الشعبي ، وابن سيرين ، وكرهه الحسن وقتادة ومن تبعهما . وقالوا : تركها عافية أحب لقوله - عليه الصلاة والسلام : ( أعفوا اللحى ) . لكن الظاهر هو القول الأول ، فإن الطول المفرط يشوه الخلقة ، ويطلق ألسنة المغتابين بالنسبة إليه ، فلا بأس
[1] عطاء تابعی کی طرف سے اس قول کی نسبت میں کچھ تردد ہے جو فتح الباری جلد 10،ص 288 سطر 17 تا سطر 27 کی عبارت دیکھنے سے واضح ہوتا ہے۔