کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 33
کیا ہے کہ اس کا اندازہ عبد اللہ بن عمر کی حدیث سے ہوتا ہے۔ کیونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج عمرہ میں قبضہ سے زائد کٹواتے تھے۔ملاحظہ ہوبخاری رحمۃ اللہ علیہ جلد2 باب تقلیم الاظفار : پارہ 24ص575) تیسری صورت : یہ ہے کہ داڑھی زیادہ بھاری یا زیادہ لمبی چوڑی ہونے کی وجہ سے شکل بھونڈی(بھدی) معلوم ہویا وضووغیرہ میں تکلیف کا باعث ہو تو اس صورت میں قبضہ سے زائد کو کٹواسکتے ہیں ۔اور یہ صورت صرف حج و عمرہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہمیشہ رخصت ہے اور جس حدیث میں کٹوانے سے نہی آئی ہے اور عرض میں صرف کنپٹیوں کی اجازت ہے یہ داڑھی ہلکی ہونے کی صورت پر محمول ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری جلد 10ص288میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں ۔ "وقال فوم اذا زاد على القبضة يوخذ الزائد وساق بسنده الى ابن عمر انه فعل ذلك والى عمر انه فعل ذلك والى عمرانه فقل ذلك برجل ومن طريق ابى هريرة انه فعله" "ایک جماعت کہتی ہے کہ جب داڑھی مٹھی سے زائد ہو جائے تو زائد کٹائی جائے اور دلیل اس کی یہ پیش کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کلام کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک شخص کے ساتھ ایسا کیا اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا"نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلاء کے ص373پر حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں لکھتےہیں ۔ "واز فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ست کہ گفتہ ابن عمر روي حديث اعفاء اللحية وكان مع ذلك يمسك لحية فما فضل عن القبضة اخذه ورخص فيه الامام احمد وابراهيم النخعي وروي الليث عن محمد بن عجلان عن ابي صالح السمان انه لما ذكر رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اعفاء اللحية كلمه اصحابه فقال يمسك قبضة فما جاوز ذلك جزه ان شاء فلعل ابن عمر بلغه هذا من حديث رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فذهب اليه والا فالا عفاء يابي ذلك ولكن لما رواه ابن عمر واخذ ما جاوز القبضة مع شدة تحريه وورعه واتباعه للسينة دل علي ان عنده من ذلك عما بالرخصة وممن ذهب الي هذا الشبعي وسفيان الثوري وغيرهما ورخص الامام احمدفي حلق ماتحت اللحية علي الحلق وجوز بعض اصحابه الاخذ من الحاجين اذا طال و قال كان احمد يفعله وكانه لم يرذلك من النص المحرم انما هذا اخذ للحاجة والاذي لطولهما واما المراة فيجوز لها ان تاخذ شاربها وان طلعت لها لحية ان تاخذها جملة اوعنفقة واستهجنه بعض اصحاب الشافعي ومنهم محمد بن جرير الطبري وراي تغييرا لخلق اللّٰه انتهي"(اتحاف10ص373)