کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 31
عموم حکم سے بعض صورتوں کی استثناء: اس میں شبہ نہیں کہ جب اللہ اور رسول ایک عام حکم دیں تو وہ حکم عام ہی رہے گا۔جب تک وہ خود اس سے استثناء نہ کریں ۔ اور جب وہ کسی صورت کو مستثنیٰ کریں تو وہی مستثنیٰ ہو گی اس پر کسی کو اضافہ کی اجازت نہ ہو گی۔ کیونکہ اُمتی کا کا م اتباع ہے نہ کہ شریعت میں تصرف مثلاً: ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾"نماز قائم کرو" عام حکم ہے اس سے حیض والی عورت مستثنیٰ ہے۔ ایسے ہی سونا اور ریشم مردوں پر حرام ہے لیکن ٹوپی،چوغہ وغیرہ پر زرکشی جائز ہے اور خارش کے وقت ریشمی قمیص پہننے میں کو ئی حرج نہیں اور قربانی میں مسنة(دو دانت) جانور کا حکم ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو جذعۃ (غیرمسنة)کی اجازت دے دی اور فرمایا:"تیرے بعد کسی کو جذعہ کی اجازت نہیں " وغیرہ وغیرہ ۔غرض یہ کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ہمیں اس میں کو ئی دخل نہیں ۔ داڑھی کے مذکورہ حکم سے کچھ صورتوں کی استثناء اس بناپر جب داڑھی کو اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے جو کہ ان پانچ روایتوں سے بھی واضح ہو چکا تو اب کسی کو کو ئی حق نہیں کہ اس میں رخنہ اندازی کرے ۔ ہاں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی صورت مستثنیٰ فرمائی ہو تو وہ بسر و چشم منظور ہےاس کے علاوہ کوئی تصرف کرے تو وہ ناقابل قبول ہے۔ بہت سی تحقیقات کے بعد ہمیں بظاہر چار اور حقیقت تین صورتیں مستثنیٰ ملی ہیں اگر کسی صاحب کے علم میں کوئی اور صورت آئی ہو تو بہتر ورنہ اللہ سے ڈرنا چاہئے اور رسول اللہ کے احکام کے الٹ نہ کرنا چاہئے ہمارے علم میں جو صورتیں مستثنیٰ آئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ پہلی صورت: عن ابى هريرة رضى اللّٰه عنه قال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا ياخذ الرجل من طول لحيته ولكن من الصدغين رواه فى الحلية (فصل رابع مشکوۃ : باب الترجل ص239) "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔مراد اپنی داڑھی لمبائی میں نہ کٹائے لیکن کنپٹیوں سے کٹالے" داڑھی کی تعریف فتح الباری وغیرہ اور لغت میں یہ لکھی ہے۔"ما نبت على الخدين والذقن " "جو بال رخساروں اور ٹھوڑی پر اُگیں "ٹھوڑی داڑھی کا طول ہے اور رخساراس کا عرض ہیں طول سے لینا تو بالکل منع کردیا اور عرض میں صرف کنپٹیوں کے بالوں کو لینے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ باقی عرض میں بھی اجازت نہیں ۔