کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 3
ایگز یکٹیو کو بریف کیا گیا کہ رجعت پسند مذہبی طبقہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے جب تک اس کا اثر ورسوخ کم نہیں کیا جا تا ،نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے ۔قانون توہین رسالت (295سی)کے خاتمے کے لیے نئے سرے سے مہم شروع کی گئی حکومت پردباؤ ڈالا گیا کہ یہ قانون اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کرتا ہے اور یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے( نعوذ باللہ ) حکومت کی طرف سے جلد ہی اعلان کردیا گیا کہ قانون توہین رسالت کے تحت مقدمات کے اندراج سے پہلے متعلقہ ڈپٹی کمشز کی اجازت لینا ضروری ہو گا۔ اسلامی و دینی جماعتیں جو میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر قدرے سکھ کا سانس لے رہی تھیں اورجو جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی سے مطمئن تھیں انہیں این جی اوز کی خطرناک پیش قدمی کا اس وقت احساس ہوا جب ناموس رسالت کا تحفظ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوگیا جلد ہی دینی جماعتیں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے میدان میں نکل آئیں ۔ بالآخر چیف ایگز یکٹیو کو 16/ مئی کو اعلان کرنا پڑا کہ حکومت نے دینی جماعتوں کی رائے کے احترام میں 295۔سی کے تحت مقدمات کے اندراج کے سابقہ طریقہ کار کوبحال کردیا ہے۔ اسلام، دشمن این جی اوز کے عزائم خاک میں مل گئے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور پاکستان کے انگریزی پریس نے چیف ایگزیکٹیوکو اس ،پسپائی، پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام تراشی کی کہ وہ ملاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ایجنڈے سے رو گردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ 295۔سی کے خاتمے کے تعلق مایوسی کے بعد دینی مدارس پرجارحانہ یلغار کی گئی ۔امریکی وزرات خارجہ جو این جی اوز کے عالمی نیٹ ورک کے لیے ایجنڈ اور پروگرام مرتب کرتی ہے کے سینئر عہد یداروں کی طرف سے حکومت پاکستان پر دباؤڈالا گیا کہ وہ دینی مدارس پر پابندی عائد کریں کیونکہ یہ دہشت گردی کے اڈے ہیں سی این این ،بی بی سیاور دیگر ذرائع ابلاغ نے جہاد کو دہشت گردی کا نام دے کر پراپیگنڈے کا طوفان کھڑا کر دیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹر پامیلا کانسٹیبل نیوریارک ٹائمز کے نمائندہ اور دیگر مغربی صحافیوں کے ایک گروہ پاکستان میں وارد ہوا۔ ان صحافیوں نے مختلف دینی مدارس مثلاً دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے دورے کئے اور وہاں مذہبی راہنماؤں (مثلاً مولانا سمیع الحق ) کے انٹرویو کئے ۔ واپس پہنچنے پر تہلکہ خیز اور شر انگیزمضامین شائع کئے، پاکستان کےانگریزی پریس نے ان کے خیالات کو خوب ہوادی۔ نیویارک ٹائمز کے نمائندے نے 11جون 2000ء کو پاکستان کے وزیرداخلہ جناب معین حیدر کا انٹرویو بھی شائع کیا جس میں ان سے من جملہ دیگر باتوں کے یہ بیان بھی منسوب کیا گیا کہ پاکستانی حکومت عنقریب دہشت گردی پھیلانے والے دینی مدارس پر پابندی عائد کرنے کا قانون لائے گی۔ پاکستانی این جی اوز کی بیگمات نے بھی دینی مدارس کے خلاف توہین آمیز پراپیگنڈہ شروع کردیا ۔ مگراب چیف ایگز یکٹیو کی آنکھیں کھل چکی تھیں حکومتی ایجنسیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد حکومت کو