کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 29
"اگر فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرو یعنی اس کی خبر پر اعتماد نہ کرو" 2۔دوسرا مسئلہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں یہ بیان ہوا ہے کہ حدیث میں داڑھی کی کوئی مقدار نہیں آئی ۔پس صرف رکھنے کا حکم ہے سوعرف عام میں جس کو رکھنا کہتے ہیں اتنی ہی کافی ہے اور عرف عام کا ندازہ یہ بتلایا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ شبہ نہ پڑے کہ چند دن سے نہیں مونڈ ی ہاں چند دن سے اوپر مونڈنے کا شبہ ہو تو یہ رکھنے کے منافی نہیں ۔بلکہ اس کو عرف عام[1]میں رکھنا کہہ سکتے ہیں ۔ چند کا اطلاق کس پر؟:یہاں مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے چند دن کی تشریح نہیں کی ۔ چند اصل میں فارسی لفظ ہے جو اردو میں بکثرت استعمال ہو تا ہے اس کے اصل معنی گنتی کے ہیں گنتی کی شے چونکہ عموماًتھوڑی ہوتی ہے اس لیے لغت میں اس کے معنی کسی قدر اور قلیل کئے گئے ہیں عربی میں تھوڑی شے کے لیے لفظ بضع یا جمع قلت استعمال ہوتی ہے شاہ ولی اللہ صاحب نے سورہ یوسف اور سورہ روم میں بضع کا فارسی میں ترجمہ چند کیا ہے اور شاہ رفیع الدین نےکئی ایک اور شاہ عبد القادر صاحب نے کئی۔ اسی طرح دیگر علماء بھی جنہوں نے تراجم لکھے ہیں قریباً یہی معنی کرتے ہیں ۔اور مولانا اشرف علی تھانوی نے سورہ یوسف میں بضع کا اردو ترجمہ چند کیا ہے اور سورہ روم میں تین سے نوتک کیا ہے چونکہ عربی میں بضع کا لفظ گنتی محدود (تین سے نوتک ) کے لیے ہے اس لیے تین سے نو تک کہنا بھی صحیح ہے اب لفظ چند کو بھی اگر گنتی محدود پر محمول کریں تو اس کی حد نو ہو گی اور اگر اس سے گنتی محدود مراد نہ ہو تو عام محاورہ کے مطابق ہفتہ عشرہ مراد ہو گا ۔ پس ہفتہ عشرہ میں جتنی مقدار بالوں کی ہو سکتی ہے۔مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے نزدیک اتنی داڑھی ضروری ہے سووہ نصف انچ بھی مشکل ہے۔ احادیث میں داڑھی کے متعلق آنیوالےالفاظ :لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے یہاں ایک بنیادی غلطی ہوئی ہے مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے داڑھی رکھنے کا جو محاورہ پیش کیا ہے یہ اردو پنجابی محاورہ ہے احادیث میں کو ئی لفظ ایسا نہیں آیا جو اس محاورہ کے موافق ہو۔احادیث میں داڑھی کے متعلق پانچ لفظ آئے ہیں ۔ 1... اَعْفُوْا 2.... أَوْفُوا 3... أَرْخُوْا 4 ... أرْجُوَا 5 ... وَفِّرُوْا اَعفُوا کا اصل عْفُوہے جس کے معنی معافی کے ہیں اور داڑھی کو معافی دینا یہی ہے کہ
[1] مولانا کی یہ رائے اصل میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حتمی اہمیت نہ دینے کے رجحان کا شاخسانہ ہے کیونکہ اس موضوع پر بھی وہ احادیث رسول سے داڑھی کی صفت طے کرنے کی بجائے عام محاورے اور استعمال سے دارھی کی مقدار کا یقین فرما رہے ہیں جبکہ کسی شرعی مسئلہ کی وضاحت اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی موجود ہو تو سب سے زیادہ وہ وضاحت نبوی اس امر کی حقدار ہے کہ اس کی بنیادپر مسئلہ کی نوعیت سمجھی جائے نہ کہ لغوی استعمالات یا رواجی مفہومات جیسا کہ زیر نظر مسئلہ میں بھی اس بارے میں حدیث میں پانچ واضح قسم کے الفاظ ملتے ہیں جدید تعلیم یا فتہ طبقے میں حدیث نبوی کے بارے میں یہی رجحان قابل اصلاح ہے ۔مسلمان کی ذاتی سوجھ بوجھ معاشرتی رواجاتاور لغوی امکانات حدیث نبوی سے بر تر ہونے کی بجائے اس کے تابع ہونے چاہئیں ۔(حسن مدنی)