کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 28
بارے میں اسی تساہل کا شکار نظر آتے ہیں چنانچہ اپنے رسالہ ترجمان القرآن مئی و جون 1945ء میں بڑی جراءت سے لکھتے ہیں ۔
"آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی بڑی داڑھی رکھنا سنت رسول ہے۔یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسول کو بعینہ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا علیہ السلام معبوث کئے جاتے رہے ہیں مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قراردینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریف دین ہے"
مودودی صاحب کی اس تحریر کا جو کچھ نتیجہ نکلتا ہے اور جو اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان پر تو ہم اپنے رسالہ "مودودیت اور احادیث نبویہ کےص13اور ص19پر مفصل بحث کر چکے ہیں ۔یہاں ہمارا مقصد صرف مسئلہ داڑھی کی حیثیت کو واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ احادیث میں جو ہے:"وَأَعْفُوا اللِّحَى"(داڑھیوں کو چھوڑدو)یا اس قسم کے اور الفاظ آئے ہیں ان کی تشریح کیا ہے تاکہ طالب رضائے الٰہی اس پر کار بند ہواور سنت کا شائق اور اس کو اپنا مسلک بنا کر شارع علیہ السلام کی منشا کو پورا کر سکے۔
وَأَعْفُوا اللِّحَى کی تشریح از مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ :
"داڑھی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے ۔آپ اگر داڑھی رکھنے میں فاسقین کی وضعوں سے پر ہیز کریں اور اتنی داڑھی رکھ لیں جس پر عرف عام میں داڑھی رکھنے کا اطلاق ہو تا ہو۔جسے دیکھ کر کوئی شخص اس شبہ میں مبتلانہ ہو کہ چند روز سے آپ نے داڑھی نہیں مونڈی ہے۔ تو شارع کا منشا پوراہو جاتا ہے خواہ فقہ کی استنباطی شرائط پر پوری اترے یا نہ اترے ۔"
(رسائل و مسائل ص181،ترجمان القران رمضان شوال 1362ھ ستمبر ،اکتوبر 1943ء)
اس عبارت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں (1)ایک یہ کہ داڑھی منڈانا بڑا جرم ہے اس سے انسان فاسق [1] ہو جاتا ہے جس کی شرعاًنہ شہادت معتبر ہے نہ خبر ۔قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
"ان کی شہادت ہر گز قبول نہ کرواور یہی لوگ فاسق ہیں "
اس آیت میں زنا کی تہمت لگانے والوں پر فاسق کا حکم لگا یا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فسق مانع شہادت ہے قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ہے۔
﴿ إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ﴾
[1] اگر کہا جا ئے کہ داڑھی کو سنت کہا جا تا ہے تو اس کا منڈانا فسق کس طرح ہوا۔اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کے کئی معنی ہیں ایک (اصول فقہ کی اصطلاح کے طور پر) فرض واجب کے مقابلہ میں جہاں سنت سے امر مستحب مراد لیاجا تا ہے اور ایک وہ طریقہ رسول جو فرض واجب کو شامل ہے یعنی اس کا مقصد صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل بتانا ہو تا ہے یہاں دوسرامعنی مراد ہے۔