کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 24
دیکھا تو سب مسلمان ہو کر اللہ کے دین میں داخل ہو گئے۔(البدایہ والنہایہ)
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کرنا خود ان کے لیے اور ان کی قوم کے لیے باعث برکت تھا کیونکہ اس شادی کی وجہ سے قبیلہ بنی مصطلق کے لوگ آزاد ہو کر اسلام میں داخل ہو گئے (اور بقول عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ کوئی عورت اپنے خاندان کے لیے باعث برکت نہیں بنی۔
صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ (البدایہ والنہایہ:159/4)
"جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی مصطلق کی عورتوں کو قیدی بنا لیا تو ان میں سے خمس (پانچواں حصہ جو بیت المال کے لیے نکالا جاتا ہے) نکال کر باقی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ اس طرح کہ سوار مجاہد کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا تو حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔چنانچہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں حارث بن ابی ضرار سردار قوم کی بیٹی!ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی نہیں میں ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی تھی اور میں نے اس سے نواوقیہ(تقریباً360درہم) چاندی کے بدلے مکاتبت کرلی ہے زر کتابت کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعاون کی خواستگارہوں ۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارے ساتھ اس سے بہتر برتاؤ کیا جائے تو قبول کروگی؟ اس نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : کیا یہ ٹھیک نہیں کہ میں تمہاری کتابت کی رقم ادا کردوں اور تم سے شادی کرلوں ؟تو انہوں نے عرض کیا: ہاں !یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے منظور ہے،جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیا ہے تو انہوں کہا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہمارے غلام ہیں ؟ چنانچہ سب نے اپنے غلام آزاد کر دئیے اس طرح اس شادی کی وجہ سے بنی مصطلق کے سوکنبے آزاد ہو گئے۔
2۔اور اسی مصلحت کے تحت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب سے شادی کی جو کہ غزوہ خیبر میں اپنے خاوند کے قتل کے بعد قید ہو گئیں اور دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں لیکن بعض صاحب الارئے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے مشورہ دیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بنی قریظہ کی رئیسہ اور ممتاز خاتون ہیں وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایان شان ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور کہا:دو صورتیں ہیں جس کو مرضی اختیار کرلو۔ پہلی صورت یہ ہے کہ میں تمہیں آزاد کردوں اور نکاح کر کے اپنی بیوی بنالوں یا پھر ہم تجھے آزاد کردیتے ہیں اور تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔ اس نے پہلی صورت کو ترجیح دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بننا پسند کیا۔ یہ عجلت کا فیصلہ اور نوجوانی کا اقدام نہ تھا بلکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کردار اور حسن برتاؤ سے متاثر ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا اور مسلمان ہو گئیں پھر ان کی وجہ سے قبیلہ کے لوگوں کی بڑی تعداد حلقہ اسلام میں داخل ہو گئی۔
بیان کیا جا تا ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرما یا : تیرے باپ کی مجھ سے عداوت تمام یہودیوں کی نسبت زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے اسے