کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 23
آپ ان کی بیٹی سے عقدکرکے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیتے،جس سے دونوں کے مابین رشتہ داری کا تعلق قائم ہوجاتا اور باہمی اُلفت ومحبت میں اضافہ ہوجاتا۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو وہ بھی ان کے اسلام ،صدق واخلاص اوراپنے آپ کو دین کے راستے میں کھپا دینے کا صلہ تھا۔وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کا شاہسوار تھا جن کے ذریعے اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخشی اور اسلام کا بول بالا ہوا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے قرابت داری کا رشتہ استوار کرنا گویا ان کی قربانیوں کا بہترین صلہ تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کی بدولت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے پہلے وزیر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مساوات قائم کی تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ا ن کی بیٹیوں سے نکاح کرنا ان کے لیے بہت برا شرف تھا۔بلکہ بہت بڑا صلہ اور احسان عظیم تھا۔جس سے بڑھ کر شاید اس دنیا میں ان کے لیے کوئی اور شرف نہ ہوتا۔کیاہی عظیم حکمت عملی تھی اور ا پنے وفادار مخلص ساتھیوں کے ساتھ کیا ہی عظیم وفاداری کا ثبوت تھا۔
اس کاموازنہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنی بیٹیوں کا نکاح کرکے انہیں دامادی کا شرف بخشا۔یہی وہ چار شخصیتیں تھیں جن کامرتبہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بلند تھا اور یہی بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جانشین بنے۔
4۔سیاسی مصلحت:
بعض عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کی خاطر شادی کی کہ عرب کے قبائل آپ کی طرف مائل ہو جا ئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون بن جا ئیں ۔ درحقیقت جب انسان کسی خاندان یا قبیلہ میں شادی کرتا ہے تو اس کے اور قبلیے والوں کے درمیان قرابت داری اور دامادی کا رشتہ قائم ہو جا تا ہے اور فطری طور پر یہ تعلق انہیں اپنے داماد کی نصرت و حمایت پر مجبور کردیتا ہے ہم اس پر چند مثالیں ذکر کرتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے وہ حکمت و مصلحت واضح ہو جا ئے جس کے پیش نظر آپ نے متعدد شادیاں کیں ۔
1۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا جو بنی مصطلق کے ایک رئیس حارث کی بیٹی تھیں اور ان اسیروں میں سے تھیں جن کو غزوہ بنی مصطلق میں قید کیا گیا۔ پھر یہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں اور انہوں نے مکاتبت کرلی۔پھر زر کتابت کی ادائیگی کے سلسلہ میں اعانت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیش کش کی کہ میں تمہاری کتابت کی رقم ادا کردیتا ہوں اور تم سے نکاح کرلیتا ہوں ۔ یہ راضی ہو گئیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا ۔
جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہماری قید میں ہوں ؟چنانچہ سب نے اپنے غلام آزاد کردئیے ۔ جب بنو مصطلق نے مسلمانوں کا یہ برتاؤ