کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 22
کے پیش نظر آپ نے اکثر شادیاں قبیلہ قریش میں کیں جن کی بدولت سسرالی اور نسبی رشتہ داریاں مضبوط ہوئیں ۔عرب کے مختلف قبائل میں اسلام پھیلا۔دیرینہ دشمنی جاتی رہی،لوگ متوالوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر گرنے لگے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ذریعے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار کوتسلیم کرلیا اور دائرہ ایمان میں داخل ہوگئے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو صرف اسی بنا پر کہ وہ ایک ایسے شخص کی بیٹی تھیں جو پوری کائنات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پیارا اور جلیل القدر تھا جو سب سے پہلے شمع نبوت کا پروانہ بنا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع اور دین کی نصرت کے لیے اپنی جان ومال اور سب کچھ قربان کردیا۔ظلم وستم کے طوفان اٹھ گئے،گزر گئے مگر اس مرد مجاہد نے اپنی جگہ سے ذرا جنبش نہ کی،حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی ان کی مدح میں کہنا پڑا:
"مجھ پر کسی کا کوئی احسان نہیں مگر میں نے اس کابدلہ چکادیا،سوائے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جس کے احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ اس کا بدلہ روز قیامت اللہ ہی دے گا۔جتنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روپیہ میرے کام آیا کسی دوسرے کا نہیں ،میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے توقف اور تردد کیا ،سوائے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے،میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے بلاتردد اس کی تصدیق کی۔اگر میرے لیے یہ ممکن ہوتا کہ میں کسی شخص کو اپنا خلیل بناسکتا(اسے وہ محبت دیتا جو محبت کا آخری درجہ ہے ) تو یقیناً اس کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کرتا۔مگر مجھے تواللہ نے اپناخلیل بنا لیا ہے(جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا)"(سنن ترمذی)
اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانیوں کا صلہ شائد اس سے بڑھ کر کوئی اور نہ ہوتا کہ