کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 21
"اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم لوگوں سے ڈرتے ہوحالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو، جب زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے تیرا نکاح اس سےکردیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں ،جب وہ ان سے اپنا تعلق توڑ لیں ،کوئی تنگی باقی نہ رہے اور خدا کا فیصلہ ہوکے ہی رہتاہے"
اسی طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ہاتھوں اس پتھر کو توڑا اور اس قسم کی تمام رسومات کا خاتمہ کردیا جودور جاہلیت میں چلی آرہی تھیں بلکہ ایک دین کا روپ دھار چکی تھی جس کی تقلید واجب اور ان سے انحراف کسی طرح بھی ممکن نہ تھا۔پھر اللہ نے اپنے اس قانون کو مزید پختہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا﴾...الأحزاب
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ،بلکہ اللہ کے رسول اور سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہے"
اس سے معلوم ہواکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح قضائے شہوت کی بناء پر نہیں تھا جیسا کہ بعض کمینہ صفت اللہ کے دشمن پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔بلکہ حکم الٰہی کے مطابق ایک عظیم حکمت اور بلند مقصد کی خاطر تھاتاکہ دور جاہلیت کی باطل رسومات کاخاتمہ ہوجائے۔اللہ نے اس نکاح کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
﴿لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا﴾...الأحزاب
"تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں ،جب وہ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلیں ،کوئی تنگی باقی نہ رہے"
اسی طرح امام بخاری نے اپنی سند سے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،باقی ازواج مطہرات پر فخر کیاکرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح عرش کے رب نے ساتویں آسمان پر کیا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح اللہ کے حکم سے اُمت کے لیے ایک قانون بن گیا۔پس پاک ہے وہ ذات جس کی حکمتیں اتنی عظیم اور دقیق ہیں کہ انسانی عقلیں اس کے ادراک سے قاصر ہیں ۔اللہ نے سچ فرمایا:
"وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً"کہ"تم بہت تھوڑا علم دیئے گئے ہو"[1]
3۔معاشرتی مصلحت:
تیسری مصلحت معاشرتی زندگی سے متعلق ہے اسی حکمت ومصلحت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے اور پھر خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے نکاح کیا۔اسی حکمت
[1] اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کا نکاح بھی اس حکمت کے پیش نظر تھا۔وہ اس طرح کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو منہ بولا بھائی بنایا ہواتھا۔جب خولہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کی بابت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بات چیت کی تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عذر پیش کیا کہ حضور تو میرے منہ بولے بھائی ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بھتیجی کو عقد میں لائیں ؟جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عذر سنا تو فرمایا کہ دینی بھائی یامنہ بولا بھائی،حقیقی بھائی جیسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی اولاد سے رشتہ ناطہ نہ ہوسکے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضا مند ہوگئے۔لیکن نکاح کو اس واسطے التواء میں ڈال دیا کہ عرب کے جاہل لوگ شوال کے مہینے کومنحوس سمجھتے تھے اور اس میں بیاہ شادی نہ رچاتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح رسم کو بھی توڑا اور فرمایا کہ اسلام کسی تقریب کے لیے وقت کا پابند نہیں اور بے ہودہ رسم ورواج کو بہت پسند کرتا ہے۔پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ماہ شوال میں نکاح کرکے یہ سبق دیا کہ ہرمسلمان کو جاہلانہ رسوم سے بچنا چاہیے۔(مترجم)