کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 20
کے پاس انہیں لینے کے لیے آئے تو آپ نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رہنے یا اپنے والد کے ساتھ چلے جانے کا اختیار دے دیا۔ اس موقع پر زید نے اپنےوالد اور چچا کے ساتھ جانے کی بجائے آپ کی رحمت شفقت کے سبب آپ کے پاس ہی رہنے کو ترجیح دی۔اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر انہیں آزاد کردیا اور مسجد حرام میں قریش کے مجمع میں یہ اعلان کردیا کہ"آپ سب لوگ گواہ ہوجائیں کہ آج کے بعدزید میرا بیٹا ہے،یہ میرا و ارث ہوگا اور میں اس کا"۔۔۔یہ صورت حال دیکھ حضرت زید کے والد اور چچا راضی خوشی واپس چلے گئے۔(الاصابہ:2/494ومسند احمد 3/161) بہر کیف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو اپنا لے پالک بنالیا۔اسی روز سے لوگوں نے انہیں زید بن محمد سے پکارنا شروع کردیا۔چنانچہ بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہہ کر بلایا کرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ نے قرآن میں یہ حکم نازل کردیا: ﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ﴾...الأحزاب "منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،یہی اللہ کے نزدیک قرین عدل ہے" تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے زید! تو زید بن محمد نہیں ،بلکہ زید بن حارثہ بن شراحیل" ہے۔"اسی طرح گویا اس باطل رسم کو ختم کرنے کےلیے راہ ہموار ہوگئی۔(صحیح بخاری:حدیث 4782) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عزت افزائی کے لیے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش سے کردیا جن کا تعلق بنی اسد سے تھا۔کچھ مدت تک تو وہ ان کے ساتھ نباہ کرتی رہی لیکن آخر کار ان کے آپس کے تعلق خراب ہونا شروع ہوگئے۔جس کی ویہ یہ تھی کہ حضرت زینب کے مزاج میں تمکنت ،تیزی تھی اور وہ تفوق وشرف کا ا حساس بھی رکھتی تھیں اور زبان سے اس کا ا ظہار بھی کرتیں ،جبکہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لے پالک بننے سے پہلے ایک غلام تھے۔ اور حضرت زینب ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔نتیجہ یہ ہواکہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دی۔اسی میں وہ مصلحت تھی جو اللہ چاہتے تھے اور جس کا اللہ فیصلہ کرچکے تھے چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم باطلہ کا خاتمہ اور اسلام کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کو اپنے لے پالک کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا حکم دے دیالیکن اس صورت میں منافقین اور فاجر قسم کے لوگوں کی نکتہ چینیوں اور زبان درازیوں کا اندیشہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ محمد نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرلیا۔اس لیے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پس وپیش کرتے اور گریزاں رہے۔آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر کو شدید ڈانٹ پلائی گئی: ﴿ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿37﴾...الأحزاب