کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 19
چنانچہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنہن اجمعین ہی نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرائیویٹ اور گھریلو زندگی کے تمام احوال واطوار اور افعال کو نقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر وہ نہ ہوتیں تو ہم شریعت کے ایک عظیم ذخیرے سے محروم ہوجاتے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی بیویوں میں سے بعض عظیم معلمہ اور محدثہ بنیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو آگے منتقل کیا اور قوت حفظ،علمی قابلیت اور ذہانت وفطانت میں مشہور ہوئیں ۔[1]
2۔دینی وشرعی مصلحت:
اس سلسلے میں دوسری بنیادی اور اہم مصلحت جو آپ کے متعدد شادیاں کرنے میں کارفرماتھی وہ دینی اور شرعی مصلحت تھی۔یہ مصلحت اس قدر واضح ہے کہ ہرشخص بخوبی اس کا ادراک کرسکتا ہے۔وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جاہلیت کی بعض غلط اورخلاف فطرت رسومات کا خاتمہ ہوجائے۔مثال کے طور پر متنبیٰ(منہ بولے) بیتے کی رسم تھی،جو اسلام سے پہلے عربوں میں رائج تھی بلکہ ان کے دین کا حصہ بن چکی تھی۔وہ وراثت،نکاح،طلاق وغیرہ تمام معاملات میں لے پالک(منہ بولے) بیٹوں کو بالکل صلبی (حقیقی) بیٹوں کادرجہ دیتے تھے۔یہ باقاعدہ ایک مذہب تھا جس کی وہ نسل در نسل تقلید اور پیروی کرتے چلے آرہے تھے۔اور یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی آدمی اپنے لے پالک کی مطلقہ سے شادی کرلے۔دوسروں کے بیٹوں کے لے پالک بنالینے کا دستور بھی عا م تھا اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کے بیٹے سے کہتا:
"تو میرا حقیقی بیٹا ہے،تومیر اوارث ہوگا اور میں تیرا وارث ہوں گا۔"
اب یہ کیسے ہوسکتاتھا کہ سلام اس باطل نظریہ کو برقرار رکھتا اور لوگوں کو جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدیتا۔چنانچہ اللہ نے اس جاہلی رسم کے خاتمہ کے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کو نبوت عطا کرنے سے پہلے ہی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کسی کے بیتے کو اپنا لے پالک بنالیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق زید بن حارثہ کو ا پنا متنبیٰ بنا لیا۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا زید بن حارثہ کو متنبیٰ بنانے کے پیچھے ایک عجیب وغریب و اقعہ اور ایک عظیم مصلحت کارفرما تھی جس کا ظہور بعد میں ہونے والاتھا۔یہ واقعہ لمبا ہے مختصر یوں ہے کہ بنو قین بن جسر نے ان کے ننھیال پر حملہ کرکے ان کو اور دیگر لوگوں کو غلام بنالیا۔بعد میں عکاظ کے میلے سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے حکم بن حزام نے انہیں خرید کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردیا۔ان کے والد حارثہ اور چچا اطلاع ملنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] چنانچہ یہ کہنابجا ہے کہ اگر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین یہ فرض انجام نہ دیتیں تو آج سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی باب بھی ہمیں مکمل نظر نہ آتا،ہر بالغ نظر تاریخ اسلام کے اوراق اُلٹ کردیکھ سکتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دین کی جوزریں خدمات انجام دیں ،قرآن وسنت کو جس محنت شاقہ سے پھیلایا۔عالم مستورات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔عورتیں تو عورتیں بڑے بڑے فقیہ اور محدث ،صحابہ وتابعین بھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مستفید ہوتے تھے۔(مترجم)