کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 17
تو ان پر یہ حقیقت واشگاف ہوجائےگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مصالح اور مقاصد کے تحت شادیاں کیں وہ مقاصد کس قدر عظیم اور اہمیت کےحامل تھے اور ہرشادی انہیں انسانی عظمت کی عمدہ مثال نظر آئے گی جو یقیناً ایسے عظیم انسان اور مجسمہ رحمت پیغمبر میں ہونی چاہیے جو دوسروں کی مصلحت کی خاطر اپنی راحتوں کو قربان کردیا کرتاہے اور اسلام اور دعوت دین کی خاطر اپنے آپ کو ہلکان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ عزیزان ملت!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت شادیاں کرنا،اس کی بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں تھیں ۔ہم ان سے درج ذیل چار بنیادی مصلحتوں کا تذکرہ کریں گے: 1۔تعلیمی مصلحت۔ 2۔دینی مصلحت۔ 3۔معاشرتی مصلحت۔ 4۔سیاسی مصلحت اب ہم مندرجہ بالا ہر مصلحت کے متعلق قدرے اختصار سے گفتگو کریں گے پھر تھوڑا سا اُمہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین کے بارے میں ذکر کریں گے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر شادی کی الگ الگ حکمت بیان کریں گے۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو! 1۔تعلیمی مصلحت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ شادیاں کرنے کابنیادی مقصد یہ تھا کہ چند ایسی معلمات تیار ہوجائیں جو عورتوں کو شرعی مسائل کی تعلیم دیں ،کیونکہ عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور ان پر ویسے ہی احکامات فرض ہیں ،جیسے مردوں پر فرض ہیں ۔پھر عورتوں کی اکثریت ایسی تھی جو فطرتاً بعض شرعی مسائل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے میں شرم محسوس کرتی تھی۔خاص طور پر وہ مسائل جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں مثلاً حیض،نفاس،جنابت اور وظیفہ زوجیت وغیرہ۔ اور وہ پیغمبر جو خود شرم وحیا کا پیکرتھا،جیسا کہ کتب احادیث میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے بھلاعورتیں اس سے شرم کیوں نہ کرتیں ۔اس لیے اس مجسمہ حیا کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ عورتوں کے ہر سوال کاجواب مکمل صراحت سے دیتے۔چنانچہ اکثر ایسے ہوتا کہ جب آپ کسی سوال کاجواب اشارہ وکنایہ سے دیتے تو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو سمجھ نہ پاتیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ قبیلہ انصار کی ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے متعلق سوا ل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کا طریقہ سمجھانے کے بعد کہا کہ خوشبو لگی روئی لے کر اس سے صفائی کرلینا،تو وہ کہنے لگی:اس کے ساتھ میں کیسے صفائی کروں ؟" سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے بتایا کہ اس روئی کو اپنے مقام مخصوصہ میں رکھو اور اس سے خون کے نشانات صاف کردو اور پھر میں نے صراحت سے