کتاب: محدث شمارہ 241 - صفحہ 10
شارح عقیدہ طحاویہ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : "وبالجملة : فأهل السنة كلهم من أهل المذاهب الأربعة وغيرهم من السلف والخلف متفقون على أن كلام اللّٰه غير مخلوق"(ص 137) "جملہ اہل سنت ،مذاہب اربعہ کے پیروکار اور دیگر سلف خلف سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کی کلام غیر مخلوق ہے" سوال ۔کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ ربوی اشیا میں ا ُدھار ہوسکتا ہے یا نہیں ۔ مثلاً ایک شخص کسی سے ایک من گندم ادھار لیتاہے اور کہتاہے کہ کٹائی کے موقع پر جب میری گندم آجائےگی تو میں آپ کو ایک من واپس کردوں گا۔ یا جیسے عورتیں گھروں میں کسی سے آٹا ادھار لیتی ہیں ۔اور بعد میں اتنا ہی آٹا واپس کردیتی ہیں ۔کیا ایسا کرناشرعاً درست ہے یا نہیں ؟ جواب:ربوی اشیا کی خریدوفروخت میں ادھار منع ہے۔البتہ قرض حسنہ کے طور پر کوئی شے لی جائے تو یہ جائز ہے۔گھروں میں آٹے کا لین دین عام طور پر قرض حسنہ کی قبیل سے ہوتاہے،اس لیے اس کا کوئی حرج نہیں ۔ سوال: ہمارے گاؤں کے گورنمنٹ سکول کے ایک استاد نے 50 کے قریب ٹیسٹ پیپرز گائیڈز جس میں دینیات وعربی کی قرآنی آیات موجود تھیں ،بچوں سے اکھٹی کرکے مٹی کا تیل ڈال کرجلادیں ۔کیااستاد کا فعل قرآنی آیات کو جلانا شریعت کی روشنی میں قابل مواخذہ نہیں ؟ جواب:قرآنی آیات والے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنے کا بلاشبہ جوازہے۔پانی میں بہادیئے جائیں ،پاکیزہ زمین میں دفن کردیئے جائیں ،اسی طرح اوراق کو جلانے کاعمل بھی درست ہے۔صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: "وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ" (باب جمع القرآن) "حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صحف سے منقول قرآن کے علاوہ ہر صحیفے یامصحف میں جو قرآن ہے،ان کو جلانے کا حکم صادر فرمایا"۔اس پر شارح بخاری امام ابو الحسن ابن بطال فرماتے ہیں : " فِي هَذَا الْحَدِيث جَوَاز تَحْرِيق الْكُتُب الَّتِي فِيهَا اِسْم اللَّه بِالنَّارِ ، وَأَنَّ ذَلِكَ إِكْرَام لَهَا ، وَصَوْن عَنْ وَطْئِهَا بِالْأَقْدَامِ . وَقَدْ أَخْرَجَ عَبْد الرَّزَّاق مِنْ طَرِيق طَاوُسٍ أَنَّهُ كَانَ يُحَرِّق الرَّسَائِل الَّتِي فِيهَا الْبَسْمَلَة إِذَا اِجْتَمَعَتْ ، وَكَذَا فَعَلَ عُرْوَة " انتهى من "فتح الباري" . "اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلا کہ ان کتابوں کو جلانا جائز ہے جن میں اللہ عزوجل کا اسم گرامی ہو،اسی میں ان کی عزت واکرام ہے بجائے اس کےکہ قدموں کے نیچے روندے جائیں ،اس میں ان کی بے ادبی ہے۔طاوس کے پاس جب اللہ کے نام والے کتب ورسائل جمع ہوجاتے تو ان کو جلا ڈالتے ،عروہ کا فعل بھی اسی طرح مروی ہے۔ (فتح الباری:9/21) لہذا موصوف کے اس فعل پر شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں ۔