کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 9
تفریح کے کم مواقع کام چوری کا رجحان والدین کی طرف سے بچوں پر توجہ دینا ناخواندگی بری صحبت افراد کنبہ کی زیادہ تعداد سوتیلےماں باپ کا براسلوک ماں باپ میں سے کسی کی وفات بچوں کے جذبات کو نظر انداز کرنا ۔۔۔اس رپورٹ کے مطابق حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مغربی معاشرہ بچوں کے حقوق کے بارے میں افراط وتفریط کا شکارہے۔ وہاں بچوں کے حقوق پر زیادہ زور نے والدین کے حقوق کو زک پہنچائی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں والدین کے احترام کا وہ تصور موجود نہیں ہے جو اسلامی معاشرےکی خصوصیت ہے۔ اسلام نے والدین کے حقوق اور بچوں کے حقوق کے درمیان خوبصورت توازن قائم کیا ہے جس کے نتیجے میں اولاد والدین کے مابین محبت اعتماد اور مستقل خونی تعلق میں پختگی اور پائیداری کی صورت قائم کردی ہے اسلام نے بچوں کے حقوق پر بہت زوردیاہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے نان ونفقہ کے بندوبست کے ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کا اہتمام بھی کریں ۔ بچوں کی تعلیم اور صحت کا خیال رکھنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے بچوں سے نرمی کے برتاؤ کی ہدایت کی گئی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ"جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور بچوں پر رحم نہیں کھاتا وہ ہم میں سے نہیں ہے"آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد شفقت اور مہربانی سے پیش آتے تھے۔ حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ نماز کی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہو جا تے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں ہوتے تو ان کے اترنے کا انتظار فرماتے ۔عید کے موقع پر ایک دفعہ آپ عیدگاہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے۔کہ راستے میں ایک بچہ کو روتے ہوئے دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر اس نے بتا یا کہ آج عید کا جشن ہے مگر اس کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوراً گھر واپس تشریف لے گئے اور اس کے لیے نئے لباس کا بندو بست فرمایا۔قرآن مجید میں یتیم بچوں کے حقوق کے تحفظ کے متعلق بے حد تاکید کی گئی ہے ۔ اسلام نے کھانے پینے خوراک اور عام ضروریات زندگی کے معاملے میں لڑکوں اور لڑکیوں سے برابر برتاؤ کی ہدایت کی ہے ۔عرب معاشرےمیں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا وحشیانہ طریقہ رائج تھا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں اسی بے رحمانہ روایت کا ذکر کیا گیا ہے:﴿ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ﴾ "اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔"(سورہ تکویر)سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ "اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضبنا کی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبنا کی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے۔کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ توبےچاری آخر کس قصور میں ماری گئی۔ اس میں اہل عرب کو