کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 8
نہیں ہے بلکہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ابھی تک خاندانی نظام کا شیراز ہ بکھرنے سے کسی حد تک محفوظ رہا ہے بچوں کے مسائل اتنے شدیدنہیں ہیں ۔عام طور پر بچوں سے محبت کابرتاؤ کیا جا تا ہے مگر نام نہاد ترقی پسند روشن خیال اور لبرل معاشروں میں بچوں کے (Abuse)کی ایسی گھناؤنی اور بھیانک صورتیں رونما ہو رہی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے گھن آتی ہے۔مگر چونکہ ان کے بظاہرروشن مگر اندر سے مکروہ اور تاریک پہلو کی نشاندہی بھی ضروری ہے اس لیے ان کا مختصر تذکر ہ بھی ضروری ہے۔ برطانیہ سکنڈے نیویا اور یورپ کے دیگر ممالک میں کم سن بچوں کی جسم فروشی کی لعنت فروغ پارہی ہے پانچ سال سے کم بچوں اور بچیوں کے ساتھ بدکاری اور انہیں بطور طوائف کے استعمال کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے مارچ 1998ءکے ریڈرزائجسٹ میں ایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی جس میں بچہ بازی کی ان مکرہ صورتوں کا تفصیل سے سروے کیا گیا ہے۔ بچوں کی بدکاری کی ویڈیوں فلم بنا کر فروخت کرنے کا مکروہ دھند ابھی وہاں پر ہو رہا ہے اس طرح کے گھناؤ نے کاروبار میں ملوث افرادکو(Paedophile)یا بچہ باز کہاجاتا ہے ریڈرزڈائجسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس غلیظ دھندے میں حکومتوں کے وزراامرا ابھی ملوث ہیں یہ پیڈوفائل بچوں کو اغواکرتے ہیں اور پھر انہیں بدکاری کے بعد قتل کر دیتے ہیں ۔ جولائی 2000ءکے دوسرے ہفتے میں برطانوی ذرائع ابلاغ نے شہ شرخیوں کے ساتھ ایک تہلکہ خیز خبر شائع کی کہ ایک پیڈوفائل نے آٹھ سالہ بچی سارہ پین(Sarah Payne)کو اغواکرنے کے بعد قتل کردیا پھر اس کی ننگی لاش کو ویسٹ سیکس کے قریب کھیتوں میں پھینک دیا۔اس وقت میرے سامنے 21/جولائی2000ءکے برطانیہ کے تین معروف اخبارات ڈیلی میل گارجین دی انڈی پینڈنٹ"رکھے ہیں ان میں اس وحشیانہ واقعہ پر متعدد آرٹیکل لکھے گئے ہیں ۔مثلاً ڈیلی میل کے ایک مضمون کا عنوان ہے (What drives a paedophile to murder)"ایک بچہ باز کو آخر کیا چیز قتل پر ابھارتی ہے؟" اسی اخبار میں بہت سے قارئین کے دردناک خطوط شائع ہوئے ہیں جنہوں نے اس معصوم بچی سارہ پین کے والدین کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے قاتل کو گرفتار کر کے سزائے موت دے۔یاد رہے کہ برطانوی قانون میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ حکومت پنجاب کے محکمہ سماجی بہبود کے زیر نگرانی نگہبان چمن اور گہوارہ کے نام سے مختلف ادارے لاہور فیصل آباد راولپنڈی ملتان اور سرگودھا میں کام کر رہے ہیں ۔گھر سے بھاگے ہوئے اور گم شدہ بچوں کو نگہبان میں رکھا جا تا ہے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک نے 1998ءمیں لاہور اور دیگر شہروں میں قائم نگہبان کی کارکردگی کے متعلق تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹ پیش کی تھی ۔اس رپورٹ کے مطابق گھر سے بچوں کے بھاگنے کی وجوہات درج ذیل ہیں ۔ غربت گھروں میں کھچاؤ(Tension)کی فضا والدین کی طرف سے مارکیٹ بچوں کے لیے