کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 63
کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کے اوپر پیچھے سے بہاد یا اور سہل فوراً شفایاب ہوگئے۔[1] غسل کرنے کا طریقہ: ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانے کے علماء نے غسل کی یہ کیفیت بیان کی ہے۔جس آدمی کی نظر لگی ہو،اس کے سامنے ایک برتن رکھ دیا جائے،جس میں وہ سب سے پہلے کلی کرے اور پانی اسی بر تن میں گرائے۔پھر اس میں اپنا چہرہ دھوئے،پھربائیں ہاتھ کے ذریعے اپنی دائیں ہتھیلی پر پانی بہائے،پھر دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہتھیلی پر پانی بہائے۔پھر پہلے دائیں کہنی ،پھر بائیں کہنی پر پانی بہائے،پھر بائیں ہاتھ سے اپنا دایاں پاؤں دھوئے۔پھر دائیں ہاتھ سے بایاں پاؤں دھوئے، پھر اسی طرح اپنے گھٹنوں پر پانی بہائے،پھر اپنی چادر یا شلوار وغیرہ کا اندرونی حصہ دھوئے،اور اس پورے طریقے میں اس بات کا خیال رہے کہ پانی برتن میں ہی گرتا رہے اس کے بعد جس شخص کو نظر بد لگی ہواس کے سر کی پچھلی جانب سے وہ پانی یک بارگی بہاد یاجائے۔[2] غسل کی مشروعیت: 1۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "نظر بد کا لگنا حق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جانے والی ہوتی تو وہ بد نظر ہوتی،اور جب تم میں سے کسی ایک سے غسل کا مطالبہ کیا جائے تو وہ ضرور غسل کرے"[3] 2۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ "جس شخص کی نظر بد کسی کو لگ جاتی تھی اسے و ضو کرنے کا حکم دیاجاتاتھا،پر اس پانی سے مریض کو غسل کرادیاجاتا تھا"[4] ان دونوں حدیثوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ جس شخص کی نظر کسی کو لگی ہو وہ مریض کے لیے وضو یا غسل کرے۔ دوسرا طریقہ:۔مریض کے سرپر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھیں : بِسمِ اللَّهِ أرقيكَ، واللَّهُ يشفيكَ مِن كلِّ داءِ يُؤذِيكَ ومِن كلِّ نَفْسٍ أو عينِ حاسدٍ، اللّٰهُ يشفيكَ، بسمِ اللّٰهِ أرقيكَ [5] "میں اللہ کے نام سے تجھے دم کرتا ہوں ۔ اور اللہ تجھے ہر تکلیف دہ بیماری اور ہرروح بد یا حسد کرنے والی آنکھ کی برائی سے شفا دے گا،میں اللہ کے نام سے تجھے دم کر تا ہوں " تیسرا طریقہ:مریض کے سرپر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھیں : بِسْمِ اللَّهِ يُبْرِيكَ وَمِنْ كُلِّ دَاءٍ يَشْفِيكَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ كُلِّ ذِي عَيْنٍ. [6] "اللہ کے نام کے ساتھ ،وہ اللہ تجھے ہر بیماری سے شفا دے گا اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر نظر بد کے شر سے"
[1] احمد ۔النسائی۔ابن ماجہ۔صحیح الجامع 3908۔ [2] السنن للبیہقی ج9 ص252۔ [3] مسلم ج5 ص 32۔ [4] ابو داود (3880 )باسناد صحیح۔۔۔ [5] مسلم (2186) [6] مسلم(2186)