کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 61
اختیار کرکے کسی کے سامنے آتا ہے تو اس میں اس ناپاک کیفیت کا ا ثر ہوجاتاہے،اور ایسا کبھی آپس کے ملاپ کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی آمنے سامنے آنے کی وجہ سے اور کبھی دیکھنے کی وجہ سے ،اور کبھی اس شخص کی طرف روح کی توجہ سے،اورکبھی چنددعاؤں اور دم وغیرہ کے پڑھنے سے اور کبھی محض وہم وگمان سے ہوجاتاہے۔اورجس شخص کی نظر لگتی ہے اس کی تاثیردیکھنے پر موقوف نہیں ہوتی بلکہ کبھی اندھے کو کسی چیز کا وصف بیان کردیاجائے تو اس کے نفس میں اگر حاسدانہ جذبات پیدا ہوجائیں تو اس کااثر بھی ہوسکتاہے،اور بہت سارے ایسے لوگ جن کی نظر اثر انداز ہوتی ہے،محض وصف کے ساتھ بغیر دیکھے،ان کی نظرلگ جاتی ہے،اور یہ وہ تیر ہوتے ہیں جو نظر لگانے والے انسان کے نفس سے نکلتے ہیں ،کبھی نشانے پر جا لگتے ہیں اور کبھی ان کا نشانہ خطا ہوجاتا ہے،جس شخص کی طرف یہ تیر متوجہ ہوتے ہیں ،اگر اس نے ان سے اور نظر بد سے بچنے کےلیے احتیاطی تدابیراختیار کررکھی ہیں تو وہ تیر نشانے سے خطا ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار خود حسد کرنےوالے انسان کو بھی جالگتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نظر بد تین مراحل سے گزر کر کسی پر اثر انداز ہوتی ہے ،سب سے پہلے دیکھنے والے شخص میں کسی چیز کے متعلق حیرت پیدا ہوتی ہے،پھر اس کے ناپاک نفس میں حاسدانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان حاسدانہ جذبات کا زہر نظر کے ذ ریعے منتقل ہوجاتاہے"[1] نظر بد اورحسد میں فرق: 1۔ہر نظر لگانے والا شخص حاسد ہوتاہے اور ہر حاسد نظر لگانے والا نہیں ہوتا،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ فلق میں حاسد کے شر سے پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔سو کوئی بھی مسلمان جب حاسد سے پناہ طلب کرے گا تو اس میں نظر لگانے والا انسان بھی خود بخود آجائے گا،اور یہ قرآن مجید کی بلاغت،شمولیت اور جامعیت ہے۔ 2۔حسد،بغض اور کینے کی وجہ سے ہوتاہے اور اس میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ جونعمت دوسرے انسان کو ملی ہوئی ہے۔وہ اس سے چھن جائے اور حاسد کو مل جائے،جبکہ نظر بد کا سبب حیرت،پسندیدگی اور کسی چیز کو بڑا سمجھنا ہوتاہے۔خلاصہ یہ کہ دونوں کی تاثیر ایک ہوتی ہے اور سبب الگ الگ ہوتا ہے۔ 3۔حاسد کسی متوقع کام کے متعلق حسد کرتا ہے جبکہ نظر لگانے والا کسی موجود چیز کو ہی نظر لگاسکتاہے۔ 4۔انسان اپنے آپ سے حسد نہیں کرسکتا،البتہ اپنے آپ کو نظر بد لگاسکتا ہے۔ 5۔حسدصرف کینہ پرور انسان ہی کرتاہے جبکہ نظر ایک نیک آدمی کی بھی لگ سکتی ہے،جبکہ وہ کسی چیز پر حیرت کا اظہارکرے اور اس میں نعمت کے چھن جانے کا ارادہ شامل نہ ہو،جیسا کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظر سہل بن حنیف کولگ گئی تھی ،حالانکہ عامر بدری صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے تھے۔ اور نظر بد کے اثر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان جب کسی چیز کو دیکھے اور اسے وہ پسند
[1] زاد المعاد ج4 ص 165۔