کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 57
پہلی شکل پر لوٹایا جائے، اس کے اصل اور خصائص ممیزہ کو برقرار رکھتے ہوئے مرورزمانہ سے پیدا شدہ خلل کے پیش نظر اس میں ترمیم کرلی جائے۔اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم کسی چیز کی تجدید کرنا چاہیں گے تو یہ نہیں سوچیں گے کہ اب اس چیز کی شکل وصورت اورجوہر ہی متغیر ہوگیاہے،اس لیے یہاں کوئی اور جدید چیز لا کر رکھ دی جائے بلکہ اسی چیز کو ہی پوری حرص کے ساتھ پہلے دور کی طرف لوٹائیں گے،ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ پہلی عمارت کو گراکر اس جگہ دوسری عمارت تعمیر کریں ۔کیونکہ ایسا کرنے کے عمل کو تجدید سے دور کابھی واسطہ نہیں اور جن لوگوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جامع مسجد کو ڈھا کر اس کی جگہ کنیسہ تعمیر کرکے اس پر لفظ جامع لکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ان لوگوں کو مجدد کہنے والے درحقیقت مستشرقین کے شاگرد اور ان کے کارندے ہیں ،حالانکہ ان کا اصل نام غلامان فکر یورپ صحیح ہے۔ یہ لوگ مغربی فکر کے شاگرد بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ شاگرد تو بعض دفعہ ا ُستاد سے دلائل طلب کرتا ہے اور استاد سے اختلاف بھی کرلیتا ہے۔اور کبھی اس کی علمی تردید بھی کرتا ہے۔جبکہ ان غلامان یورپ کا فکر مغرب کے متعلق طرتز عمل آمنا وصدقنا ہے۔آپ دیکھیں گے کہ ہر وہ چیز جس پر یورپین لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک حق۔۔۔جو کچھ کہیں ،وہ سچ اور جوکچھ بھی وہ کریں ،ان کے نزدیک وہ صحیح ہے۔اس معاملے میں دائیں اور بائیں طرف کے غلام برابرکے شریک ہیں ایسے لوگ اصل ومنبع ایک ہی ہے۔یہ سب لوگ اس شجرہ معلونہ کی پیداوارہیں جس کا ذکر قرآن ،تورات اور انجیل میں موجود ہے۔مادیت کا شجرہ خبیثہ وہ ہے جو انسان کو روح اور حیات کو ایمان سے خالی اور معاشرے کو صراط مستقیم سے ہٹا دیتا ہے۔ان خود ساختہ مجددین کے مکروفریب کا پردہ ڈاکٹر محمد البہی نے اپنی کتاب فکر السلامی الحدیث وصلة بالا استعمار الغربی میں چاک کیا ہے۔حقیقی مجدد تو وہ ہوتا ہے جو دین کی تجدید،دین کے لیے ،دین کے ساتھ کرے۔لیکن جو شخص مشرق یا مغرب والوں کے مفادات کے لیے ،دین کی تجدید،مستشرقین یا ملحدین کے افکار ونظریات سےکرے اسے حقیقی تجدید سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ [1] ۔ماخوذاز عربی مجلہ الامیہ روحہ قطر [2] ۔یہ روایت اجمالی معنیٰ کے لحاظ سے جید ہے کیونکہ بہت سی دیگرمعتبر روایات اس کے مفہوم کی مؤیدہیں ۔ اگرچہ بہ سند خاص روایت حدیث کی روسے ضعیف ہے۔