کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 55
تجدید کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے اجتہاد فکری علمی پہلو کی تجدید ہے اور تجدید فکری روحانی اور عملی شعبوں پر مشتمل ہے اور جن شعبوں کو اسلام اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے وہ ہیں علم ایمان اور عمل۔ اُمت محمد یہ اس وقت ایمان و فضائل اور اپنے اصلی و شخصی فضائل کی تازگی کے لیے کسی مجدد کی شدید محتاج ہے جو آج کل کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی طرح مسلم معاشرے کی نشاۃ ثانیہ و ترقی کے لیے خدمات سر انجام دے۔ اور اس اجتہاد کو چند مخلص و حق پرست لوگوں مثلاًجناب سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ امام حسین رحمۃ اللہ علیہ البنا اور سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کر رکھا تھا ان میں سے بعض لوگ اپنی زندگی پوری کر گئے ہیں اور بعض منتظر ہیں اب بعد میں آنے والوں پر فرض عائد ہو تا ہے کہ وہ مشن کو مکمل کریں اور اس کی خامیوں و نقائص کی تصحیح کریں تاکہ اللہ اپنے اس نور کو مکمل کر دے ۔ سوال نمبر۔ تجدید دین کے مسئلہ میں آمدہ حدیث مبارکہ "إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا" "بڑی اہمیت رکھتی ہے اس حدیث میں لفظ من سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ؟ کیا مسلمانوں کی نگرانی اور راہنمائی کا عمل صدی کے وسط یا آخرمیں ایک جماعت کے ماتحت ہو گا یا فرد کے زیر سایہ ہو گا ؟۔۔۔اسلامی شعور کے تحت اس حدیث کا مفہوم معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر شخص کو جماعتی نظم و نسق میں شامل رہ کر تجدید دین کے لیے ابھارتا ہے؟ جواب: یہ حدیث جسے ابو داؤد نے سنن حاکم نے مستدرک ،بیہقی نے معرفۃ السنن و الآثار اور طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اس نے اُمت کو امید کی کرن بہم پہنچائی ہے اور یاس و ناامیدی کو دور کرتی ہے اور اس امرکی روح پیدا کرتی ہے کہ اللہ اس اُمت کو عرصہ دراز تک چبایا جا نے والا لقمہ نہیں بنائے گا ۔اور نہ ہی گلا گھوٹنے کے لیے بے حرارت دھوئیں کے سپرد کرے گا اور نہ اس اُمت کو اختلاف کے ہاتھوں میں ایسے چھوڑے گاکہ وہ اسے ختم کردے گا بلکہ اللہ ایسے شخص کو ضرورپیدا کرے گاجو صدی کے اخیر یا وسط میں امت کو تفریق سے تنظیم موت سے زندگی اور غفلت سے بیداری میں لائے گا ۔۔۔یہ ہیں تجدید کے بعض معانی!! چنانچہ وہ صلح اُمت کو دین سے ترو تازگی عطا کرے گا اور دین اس مصلح سے ترو تازہ ہوگا حدیث کے شارحین نے من سے مراد فرد واحد لیا ہے جسے اللہ علمی عملی اور اخلاقی خوبیوں سے نوازے گا اور ان خوبیوں کے ذریعہ دین کو اس کے شباب وجوبن پر لائے گا یا نافع علم و عمل کے ذریعےاس دین کو قوت و زندگی بخشے گا یا وہ بہت بڑا جہاد کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہر صدی میں کسی ایک شخص کی تجدید دین کے سلسلے میں مختلف الخیال ہو تے ہیں بعض دفعہ ایک شخص کے مجدد ہونے میں اتفاق کرتے ہیں اور بعض دفعہ مجدد کے تعین پر اختلاف کرتے ہیں مثلاً انہوں نے درج ذیل شخصیتوں کے مجدد ہونے پر اتفاق کیا