کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 54
حکمت کا متلاشی ہے جہاں کہیں بھی انہیں وہ مل جائے وہیں سے حاصل کر لیتا ہے۔یہ لوگ اسلام کی چھتری میں جدت کو بھی قبول کرتے ہیں اور قبول کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں اور جائز و ناجائز کے حصول میں فرق کرتے ہیں اور اچھائی اور برائی میں تمیز کرتے ہیں یہ طبقہ یا گروہ ملت اسلامیہ کی محتاجی کے پیش نظر مادی اور فنی علوم کے حصول کی حتیٰ الوسیع دعوت دیتا ہے اور محض خریداربننے اور خود ناواقف رہنے کی بجائے جدیدٹیکنالوجی کے ماہر اور موجد بننے کو شرط قرار دیتا ہے ان حقیقی داعیان اسلام کا موقف قدیم نافع اور جدید اچھی چیزوں کو جمع کرنا اقوام عالم کے مسائل کو سلجھناہے۔ مسائل پر ثابت قدمی دکھانا وسائل میں شدت کا اہتمام کرنا اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور فروعات میں نرمی برتنا ان کا شعار ہے۔ اجتہاد اور تجدید کا باہمی ربط: سوال نمبر9۔ اجتہاد اور تجدید میں ایک طرح کا دوہراربط ہے جب اسلام قرآنی احکام اور تفہیم سنت کے معاملہ میں اجتہاد کو تسلیم کرتا ہے تو کیا اس طرح تجدید کو بھی قبول کرتا ہے؟ یا یہ تجدید نظام حیات عقائد و تفہیم احکام جیسے مسائل کو احسن طریق سے سلجھانے والے مذہب کے منافی ہے؟یا کیا ہر دونوں کے کام کرنے کے راستے الگ الگ ہیں ؟ جواب: تجدید دین کے مسئلہ پر بعض صحافیوں کے سوال پر ایک فاضل صاحب علم کے جواب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ دین ثابت الاصل ہے اس میں تجدید و ارتقا کی گنجائش نہیں ہے میرے خیال میں اس انکار کا سبب یہ ہے کہ مبادالوگ لفظ تجدید کو مطلقاً دین میں کمی و زیادتی سمجھیں گے۔تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ مطلق تجدید کو ہی بند کیا جا ئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ میں دوٹوک فیصلہ فرما دیا ہے۔ "إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا" "اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی میں ایک ایسے آدمی کو بھیجےگا جو اس کے لیے دین کی تجدید کرے گا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور حکم کے بعد کسی امتی کا قول یا حکم معتبر نہیں ۔ دراصل بعض مخلص علماء صحیح اور ثابت الاصل مسائل کا لوگوں کے برے استعمال کی وجہ سے سرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور غلطی کا علاج غلطی سے کرتے ہیں اس معاملہ میں سیدھا راستہ یہ ہے کہ ثابت الاصل ثابت رہنے دیا جائے اور صحیح تفسیر کے ساتھ باطل تاویلات اور مغالطوں کا رد کیا جائے۔ تجدید دین تو نص سے ثابت ہے لیکن یہ بعینہ اجتہاد نہیں بلکہ اجتہاد تو تجدید کی ایک شاخ ہے اور