کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 53
انکار کرتے ہیں اور کسی جماعت یا فرد کے لیے اجتہاد کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ 2۔گروہ ظاہری : دوسرے گروہ کا نام ظاہری ہے۔ اس نام سے میری مرادوہ حرفیین ہیں ۔جو ظاہری نصوص پر جمود اختیار کرتے ہیں اور مقاصد پر گہری نظر نہیں ڈالتے اور نہ ہی کلیات کی روشنی میں جزئیات کو پہچانتے ہیں اور یہ بات چنداں تعجب خیز نہیں کہ وہ شریعت کے فروغی مسائل میں جنگ و جدال برپا کرتے ہیں ۔۔۔تاہم یہ دونوں گروہ اسلام کے لیے مخلص ہیں لیکن ان کا اخلاص اس ماں جیسا ہے جو اپنے لخت جگر کو ہوا اور دھوپ کے خوف سے کمرے میں بند کردے جس سے بچے کی موت واقع ہو جائے۔ 2۔تجدید کے دلدادہ: ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ غالی متجد دین کا ہے ۔ یہ گروہ ہر قدیم چیز کو مٹانے کا ارادہ رکھتا ہے اگرچہ وہ معاشرے میں بنیادی حیثیت کی حامل ہواوراس کا وجود خیر و برکت کا باعث اور اسلامی معاشرے کی بقا کا راز ہو۔ ان کا ارادہ قریب قریب یہ ہے کہ لغت سے لفظ ماضی کو اڑا دیں اور علم تاریخ کو ختم کر دیں ۔ ان کی تجدید بعینہ مغربیت ہے اور یورپ کی ہر قدیم چیز ان کے لیے نئی ہے یہ لوگ ہر وقت یورپ کی بیٹھی یا کڑوی چیز اچھائی یا برائی کے حصول کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ،جب رافعی کا سامنا ان لوگوں سے ہوا تو انہوں نے طنزکرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ دین و شریعت تو کجا شمس و قمر ہوا مٹی کو بھی جدید بنانا چاہتے ہیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ کعبہ کو یورپی پتھروں سے جدید نہیں بنا یا جا سکتا اور امیر الشعراء احمد شوقی نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ولو استطاعوا في المجامع أنكروا من مات من آبائهم أو عمّرا من كل ساعٍ في القديم وهدمه وإذا تقدم للبناية قصّرا "کہ اگر نہیں کچھ شرم و حیا مانع نہ ہو تا تو کھلی مجلسوں میں اپنے اسلاف و آباؤ اجداد کا بھی انکارکردیتے جب وہ جدید محل بنانا چاہتے ہیں تو پرانے کو گرانے کے درپے ہو جا تے ہیں ۔" ان دونوں گروہوں کے متعلق امیر شکیب ارسلان نے شکوہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دین جامد ین اور جامدین میں کھوگیا ہے۔۔۔پہلا گروہ جمود سے لوگوں کو متنفراور دورسراگروہ جحود (انکار) سے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ 3۔اعتدال پسند گروہ :ان دوقسموں کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے جو درمیانی راہ اختیار کرتا ہے جو قدامت پسندوں کے جموداور جدت پسندوں کے جحود کو ترک کئے ہوئے ہے۔ یہ گروہ