کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 51
آپس میں مالی و اقتصادی طریق کار جس کو مقتدمین جانتے بھی نہ تھے، اگر کچھ علم تھا تو وہ صرف سطحی سا علم تھا اس نوعیت کے جدید مسائل اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں اور ان چیزوں پر اجتہاد کا نام اجتہاد انشائی ہو گا یعنی وہ واقعہ جس میں مجتہدین جدید حکم لگائیں اگر چہ ہمارے قدیم فقہاء نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حتمی بات فرمائی ہو۔ مثلاً کوٹھیوں پلاٹوں کار خانوں ڈگریوں اور گریڈوں پر زکوۃ سونے کو کرنسی کی بنیاد قرار دینا ٹھیکے والی زمین میں مالک اور مزارع دونوں پر زکوۃ واجب ٹھہرانا جبکہ نصاب پا یا جائے مثلاً مالک زمین کی پیداوار کی قیمت اور اجرت کی زکوۃ دے اور مستاجر ٹھیکے کی رقم وضع کر کے کھیت یا پھلوں کی زکوۃ ادا کرے۔ اجتہاد انتقائی:یہاں اجتہاد کی ایک قسم اور بھی ہے اور اس کا نام اجتہاد انتقائی ہو گا یعنی ہمارے فقہی سر مایہ سے ایسے راجح قول کو اختیار کرنا جو مقاصد شریعت اور لوگوں کی ضروریات اور زمانہ حاضر کے بہت قریب ہو۔ بعض دفعہ انتقاء مذاہب اربعہ میں بھی داخل ہوتا ہے جیسے زمین کی ہر پیداوارپر زکوۃ کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی ترجیح اور محتاج کو مدت العمر روزینہ دینے کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی ترجیح اور بعض دفعہ ترجیح کا معاملہ مذاہب اربعہ میں بھی پیش آتا ہے کیونکہ فقہاء اربعہ اپنی جلالت علمی کے باوجود اکیلے ہی فقیہ نہیں تھے بلکہ وہاں ان کے ہم پلہ معاصرین بھی تھے جن کی ان پر بعض امور میں برتری بھی ممکن ہے اسی طرح اس زمانے میں فقہاء کرام کے اساتذہ بھی تھے جن میں صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی شامل ہیں اور وہ یقیناً ان فقہاء سے افضل تھے ۔شرعی اعتبارات کے مطابق اگر کسی ایک فقہاء کا راجح مذہب اختیار کر لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے مثلاً حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتابیہ عورت سے شادی کرنے پر پابندی عائد کردی تھی کہ اس میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے حقوق ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور ان عورتوں کے محصن ہونے کی شرط نہ پائے جانے کا خطرہ تھا حالانکہ قرآن میں ان کتابیہ عورتوں سے شادی کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ پاک دامن ہوں : ﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ﴾(المائدہ:5) یا مطلقہ عورت کے متعہ (نان و نفقہ) کو واجب ٹھہرانے میں امام عطا کا قول اختیار کرنا یا طلاق ثلاثہ بیک لفظ یا بیک مجلس کو بعض اسلاف مثلاً امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کے مطابق ایک شمار کرنا یا شدیدغصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کے عدم وقوع میں بعض اسلاف کا مذہب اختیار کرنا کہ: " لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ" وارد ہے یا طلاق بدعی کے عدم و قوع کو لینا وہ طلاق جو حالت حیض میں دی جائے وہ کالعدم قراردی اور اس طرح اس طلاق کا معاملہ جو شخص کسی بات یا کام سے روکنے یا کسی کام کے کرنے کی وجہ سے واقع ہو۔ اس طلاق کو قسم کا مقام دے کر کفارہ ادا کرنا اور اس طرح بعض سلف کے مطابق قریبی رشتہ داروں میں سے جو وارث نہ ہوں ان کے متعلق وصیت کو واجب ٹھہرانا اسی قول کو بنیاد بنا کر حکومت مصر نے ایک قانون الوصیۃ الراجبۃ بنایا ہے کہ جب پوتے کا والد وارث ہونے سے پہلے وفات پا جا ئے تو پوتے کو دادا کی وراثت سے اتنا حصہ دیا جائے گا جتنا کہ اس کے