کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 49
ہے اور فلاں چیز کو واجب اور فلاں معاملہ میں رخصت دی ہے۔۔۔یہ علمی شرائط جو ہم نے بیان کی ہیں ان کا ہر مجتہد مطلق میں جو فقہ کے تمام مسائل وابواب میں اجتہاد کرتا ہو،پایا جانا ضروری ہے۔ جزئی مجتہد لیکن جزئی مجتہد کو اپنے شعبے کی حد تک علم ہو نا چا ہیے اور اس کے پاس علمی سندات ہونی چا ہئیں کیونکہ اکثر علماء کے نزدیک اجتہاد کے حصے بھی ہیں ۔چنانچہ اقتصاد یات کے پروفیسر عالم کو اجازت ہے کہ وہ اپنے شعبے تک اجتہاد کرے جبکہ وہ اس بارے میں واردشدہ نصوص اور ان کے متعلق اجتہادات کا وسیع علم رکھتا ہو اور اس کے پاس اصول استدلال و تعارض کے قواعداور ترجیح کا علم بھی ہو۔ اجتہاد کے چند ضوابط: سوال نمبر6۔ پچھلے چند سالوں میں مسئلہ اجتہاد کے متعلق چند ایسے تصورات رواج پاگئےہیں ۔جنہوں نے اجتہاد کو اس کے اصل رخ سے ہٹا دیا ہے۔ اگر معاملہ اسی طرح جاری رہا تو لازماً اجتہاد شرعی کے لیے ضوابط بنانے پڑیں گے جس سے مسلمانوں کو اصلی اجتہاد کا پہچاننا ممکن ہو؟ جواب: دور حاضر میں اجتہاد کے متعلق میں چند ضوابط بیان کرتا ہوں جن کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ 1۔قطعی احکامات میں اجتہاد سے بچنا:کیونکہ اجتہاد کی گنجائش انہی احکام میں ہے جن کے دلائل ظنی ہیں اور یہ بات ہمیں زیب بھی نہیں دیتی کہ ہم احکام شریعت سے کھیلنے والوں کے ساتھ چلیں جن کا کام ہی یہی ہو کہ قطعی کو ظنی اور محکم کو متشابہ ثابت کریں کیونکہ اس صورت میں تو ہمارے لیے کوئی معیار ہی نہ رہے گا جس پر ہم اعتماد کریں ۔ 2۔ظنی کو قطعی بنانا:جس طرح قطعی دلائل کو ظنی بنانا جا ئز نہیں اس طرح ظنی دلائل کو قطعی بنانا بھی درست نہیں اور جن مسائل میں اختلاف ہو چکا ہو۔ نہ ہی اسے اجماع کہیں اور یہ بھی لائق نہیں کہ ہم ہر مجتہد کے سر پر اجماع کی تلوار لٹکائیں جس طرح امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین نے ان کے اجتہادات و اختیارات کے متعلق ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا حالانکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماگئے ہیں ۔ "ما يدعي فيه الرجل الإجماع فهو كذب ، من ادعى الإجماع فهو كاذب ، لعل الناس اختلفوا ، ما يدريه" "جس نے اجماع کا دعوی کیا اس نے جھوٹ کہا۔ اسے کیا علم شائد کسی عالم نے اختلاف کیا ہو جسے یہ جانتا نہ ہو۔ مجھے جدید تمدن کے مقابلے میں مسلمانوں کی نفسیانی شکست اور موجودہ معاشروں کے اپنائے ہوئے قوانین کے سامنے جھکنے کا بہت خطرہ ہے کیونکہ یہ قوانین نہ مسلمانوں نے بنائے اور نہ اسلام نے ان کی اجازت دی بلکہ یہ قوانین سامراجیوں نے ہم پر مسلمانوں کی غفلت اور اپنی قوت و فریب سے مسلط