کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 48
کہیں ایسا نہ ہو کہ جو مجتہد لوگوں کو فتویٰ دیتا ہے کسی محل چرچ یا خانقاہ میں الگ تھلگ زندگی گزارتا ہواورلوگوں کو واقعات سے بعید فتاویٰ دیتا ہو یا زمانہ ماضی کے احکام دور جدید کے لوگوں پر منطبق کر رہا ہو اور محققین کے اس قاعدہ کلیہ سے غافل نہ ہوکہ فتویٰ زمان و مکان حالات اور عرف کے تغیر سے بدل جا تا ہے یہ بھی ضروری ہے کہ مجتہد لوگوں کے طور طریقوں سے آگاہ ہو اور اپنے دور کی ثقافت کے عام اصولوں کی شناسائی رکھتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مجتہد ایک وادی میں اور لوگ دوسری وادی میں رہتے ہوں اگر مجتہد سے ان مسائل کے متعلق سوال کیا جائے جن کی حقیقت اسباب اور نفسیاتی اور معاشرتی اور فلسفیانہ پس منظر سے وہ ناواقف ہو تو مسئلہ کو جانچنے اور اس کے متعلق فتوی صادر کرنے میں غلطی سے وہ سلامت نہیں رہے گا۔اس لیے کہ علماء منطق کا اصول یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق حکم لگانا اس کے تصور پر مبنی ہو تا ہے جب تصور ہی غلط ہو تو فتویٰ غلط ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔ مجتہد اصلی کا طریق کار: اصلی مجتہد وہ ہو تا ہے جو ایک آنکھ سے نصوص اور دوسری سے واقعات اور زمانے کے تغیر کو دیکھتا ہو تا کہ پیش آمدہ مسئلہ اور فیصلہ میں موافقت و موزونیت پیدا کر سکے اور ہر واقعہ کے متعلق زمان مکان اور حالات حاضرہ کے موافق فیصلہ صادر کرے۔ علامہ ابن قیم نے ذکر کیا ہے ان کے استاد امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے میں تاتاریوں کے لشکرکے قریب سے گزرے جو شراب کے نشے سے دھت ہو رہے تھےتو آپ کے ساتھیوں نے انہیں اس فعل بدسے نہ روکنے پر آپ رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :" انہیں چھوڑو،اللہ نے شراب تو اس لیے حرام کی ہے کہ وہ نماز اور ذکر اللہ سے روکتی ہے لیکن ان کو شراب فساد فی الالرض اور قتل و غارت سے روکتی ہےلہٰذا اگر یہ شراب کے نشے سے آزاد ہوگئے تو اس سے بڑے جرائم یعنی قتل و غارت اور عزت دری میں مصروف ہو جا ئیں گے۔ آپ کا یہ کہنا ایک متعین اصول اور ضابطے کے عین مطابق ہے اور وہ یہ کہ کسی گناہ پر اس سے بڑے گناہ کے خوف سے خاموش ہو جا نا اور (أهون الشرين أو أخف الضررين. )کو اختیار کرنا یعنی دو مصیبتوں اور تکلیفوں میں نسبتاً آسان مصیبت کو اختیار کرنا۔ ایک اور شرط :یہاں ایک اور شرط ہے وہ یہ کہ مجتہد عادل نیک سیرت اور فیصلہ کرنے میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں اور جا نتا ہو کہ اس معاملہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کر رہا ہے نہ وہ خواہش کی پیروی کرتا ہو اور نہ ہی دین کو دنیا کے بدلے میں فروخت کرتا اور جو آدمی اپنے دین کو اپنی ذاتی دنیا کے لیے فروخت نہیں کرے گا۔ وہ دوسرے کی دنیا کے بدلے دین فروخت کرنے کی جسارت بھی نہیں کرے گا۔ جب اللہ نے عوام الناس کے معاملے میں گواہ کے لیے عادل ہونے کو شرط قرار دیا ہے تو اس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جو اللہ کے دین کے متعلق گواہی دے کہ اللہ نے فلاں چیز کو حلال اور فلاں کو حرام ٹھہرایا