کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 44
(مصنف حجۃ اللہ البالغہ) کو پاتے ہیں تیرہویں صدی میں مجتہد مطلق امام محمد بن علی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ظاہر ہوتے ہیں جن کا اجتہادی مرتبہ ان کی کتابوں مثلاً نيل الاوطار...السيل الجرار...الدرد البهية اور اس کی شرح الدواري المضية ارشاد ا لفحول وغیرہ اصول و فروغ کی کتابوں سے آشکاراہےبلکہ تاریخ اور واقعات کی روشنی میں یہ بات کہنا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ عثمانی حکومت نے اجتہاد کے مقابلہ میں جہاد کا زیادہ اہتمام کیا تھا ۔حالانکہ حکومت اسلامیہ اجتہاد اورجہاد دونوں کی برابر محتاج ہے یعنی ہدایت الٰہی اور معرفت دین کے کے لیے اجتہاد کی جبکہ دین کے حفاظت و حمایت کے لیے جہاد کی! اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا ہے کہ لا بد للدين من كتاب هاد وحديد ناصرکہ دین کی معرفت کے لیے کتاب اور اس کی حفاظت و حمایت کے لیے ہتھیارضروری ہے ان کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے۔ ﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾(الحدید:25) "ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ معبوث کیا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف قائم کریں اور ہم نے لوہانازل کیا جس میں سختی ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ۔" عثمانی سلطنت کا رجحان اجتہادی فکر کی بجائے جہاد کی طرف زیادہ تھا جس کا نتیجہ جدید یورپ سے اس کی شکست کی صورت میں نکلا ۔ تحریک اجتہاد کی نشاۃ ثانیہ کس نے کی؟: سوال نمبر2۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ موجود ہ دور میں تحریک اجتہاد کی ابتدا سید جمال الدین افغانی نے کی تھی۔لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے تلامذہ خصوصاً علامہ رشید رضا مصری ان کی فکر پر ہی انحصار کرتے کرتے خود بھی اسی تقلیدی رجحان کا شکار ہوگئے۔ کیا اب بھی تحریک اجتہاد کا موزوں حالات میں احیاء کرنا ممکن ہے؟ جواب:معلوم ہو تا ہے کہ یہ بات کہنے والا اجتہاد کے اصول و مبادیات سے نابلد ہے اگر اسے تحریک اجتہاد کے عروج و زوال اور اس کے اصول و ضوابط کا علم ہو تا تو جان لیتا کہ اجتہادی فکر پہلے کی یہ نسبت زیادہ پروان چڑھی ہے نہ کہ تنزل پذیر ہوئی ہے اور یہ اجتہادی فکر عام مسائل اور اجمالی نصوص سے شروع ہوئی اس کے بعد اس کا دائرہ بڑے بڑے مسائل تک وسیع ہو تا گیا۔ ہماری مراد یہ ہے کہ شیخ محمد عبدہ از ہری ثقافت کے باعث اپنے شیخ سید جمال الدین افغانی سے محکمات شریعت کو زیادہ مضبوطی سے تھامنے والے تھے اور ان کے شاگرد علامہ رشید رضا مصری اپنے استاد محمد عبدہ سے بھی زیادہ محکمات و مسلمات شریعت کو اپنانے والے تھے کیونکہ انہیں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ سلفیہ کی فکر اور سنن و