کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 43
اُمت کے نزدیک دواور اصول اجماع اور قیاس ہیں پھر دوسرے مصادر (مثلاً استحصان استصلاح سد ذرائع عرف عام اور شرائع سابقہ وغیرہ) کی باری آتی ہےجن میں کچھ چیزوں کے بارے میں فقہاء متفق ہیں اور بعض کے بارے میں ان باہمی کا اختلاف ہے ان میں سے بعض فقہاء گنجائش دینے کے قائل ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ بالا بحث سے واضح ہوا کہ علم فقہ نشو ونما پاتا اور پروان چڑھتا رہا جس قدر جدید مسائل پیش آتے گئے۔اسی قدر ان کو حل کرنے کے لیے فقہی کاوشیں رنگ لاتی رہیں اور اس موضوع پر کتابیں مدون ہوتی گئیں ۔مسلمانوں میں کتاب و سنت کی روشنی میں جس قدر استنباط کے طریقے وضع کئےگئے۔سابقہ اُمتوں سے اس کی مثال ملنا محال ہے اور یہی اسلامی فقہ مسلمانوں کا قابل افتخار سر مایہ ہے۔ یہی فقہ اور فتاویٰ فیصلہ جات تمام اسلامی قلمرو میں جاری اور ساری ہوتے رہے یہاں تک کہ سا مراجی اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اور انہوں نے ایک محدود دائرہ حیات یعنی احوال شخصیہ (پرسنل لاز) کے علاوہ ہر معاملے کو شریعت کی رہنمائی سے علیحدہ کردیا ۔ یہ بات صحیح نہیں ہےکہ شریعت خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بعد کلیۃمعطل ہو گئی تھی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بارہ صدیوں تک مسلمانوں کے لیے سوائے شریعت اسلامیہ کے کوئی دستور یا قانون ہی نہیں تھا کہ مسلمان اسے اپنانے کی جراءت کرتے اور اس کے مطابق اپنے مسائل حل کرتے ۔شریعت کے احکام کو سمجھنے میں غلطی کرنے اور ان کے نفاذ میں کمزوریاں دکھانے کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی فقہ کو ہی دستور العمل بنایا۔ اجتہادکے دروازے کی بندش : اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ پہلی دفعہ سلطنت عثمانیہ ہی ایسی لاپرواہ ثابت ہوئی کہ مختلف حالات میں اس کی لغزشوں اور غلطیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تقلید کا تسلط مذہبی تعصب اور اجتہاد مطلق کے شجر کا مرجھا جانا ایسی وجوہات ہیں جو دولت عثمانیہ کے زوال کا باعث بنیں اور یہی جراثیم دوسری اسلامی حکومتوں میں وقتاً فوقتاً پھیلتے رہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی زمانہ مجددین ملت اور مجتہدین امت سے خالی نہیں رہا یہاں تک کہ ہم امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے ہیں اور انہیں بجا طور پر خوش فہمی تھی کہ وہ نویں صدی کے مجددہیں اور انہوں نے اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے: "الرد على من أخلد إلى الآرض وجهل أن الإجتهاد في كل عصر فرض" (اس شخص کارد جوہر دور میں فرضیت اجتہاد سے ناواقفیت کی بنا پر پستی میں جاگرا) اور بارہویں صدی میں ہم مجدد کبیر امام احمد عبد الرحیم المعروف شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ