کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 42
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اجتہاد کی بہت سی مثالیں ہیں مثلاًحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارض عراق کے بارے میں موقف اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کے ساتھ موافقت کرنا۔ ارض عراق کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصلہ کیا کہ اس کے چار حصے فاتحین اور مجاہدین میں تقسیم نہ کئے جائیں حالانکہ قرآن میں صاف مذکورہے۔ ﴿ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ﴾(سورہ الانفال) اور اس فیصلہ پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا کہ تمھارا خیال ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کچھ بھی نہ بچے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی ایسا پرو گرام بنائیں جو موجودہ لوگوں اور بعد میں آنے والوں کو کفایت کر سکے تو اس اجتہاد سے تمام معاشرے کی اجتماعی کفالت واجب قراردے دی گئی۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گمشدہ اونٹ کے بارے میں موقف کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں گم شدہ اونٹ کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا اور دریافت کرنے والے کو فرمایا : تجھے اونٹ سے کیا سروکارہے! اس کا تو پانی اور خوراک اس کے ساتھ ہی ہے پانی پر خود پہنچ جائے گا اور درختوں کے پتے کھاتا رہے گا یہاں تک کہ اس کا اصل مالک اسے پالے گا اسی حکم کے تحت عہد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں گم شدہ اونٹ چھوڑ دیے جاتے تھے ،لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں لوگوں کی طبا ئع بدل گئیں اور لوگ گم شدہ اونٹوں کو پکڑنےلگے اور انہیں اپنے اصل مالکوں کی طرف نہیں لوٹا یا جا تا تھا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی میں مصلحت سمجھی کہ ان کو محفوظ کر لیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نگہبان مقرر کیا جو ان اونٹوں کو جمع کرتا اور انہیں اصل مالکوں کے پاس لوٹا دیتا اور مالک نہ ملنے کی صورت میں انہیں فروخت کر کے رقم محفوظ کرلی جاتی یہاں تک کہ اصل مالک مل جا تا تو رقم اس کے حوالے کردی جاتی۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں فیصلہ کیا کہ لوگوں کا جو مال یا سامان کار یگر کے پاس سے ضائع ہوجائے توکار یگرسے اس کی قیمت وصول کر لی جائے۔(صناع )کا ہاتھ دراصل امانت محفوظ کرنے والا ہوتا ہے ۔لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا یہی فیصلہ لوگوں کے لیے درست ہے یہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اعلیٰ درجہ کی فقاہت تھی اور انہوں نے دین حنیف میں دی جانے والی سہولتوں میں اصولوں کو بھی فراموش نہیں کیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے تلامذہ بھی انہی اصولوں پر چلتے رہے انہوں نے مساجد میں فقہی مدارس قائم کئے جو پیش آمدہ مسائل کا جائزہ لیتے اور ان کے متعلق اپنے فتاویٰ صادر کرتے اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا کرتے تھے انہی مساجد میں قائم شدہ جامعات (یونیورسٹیوں )سے بڑے بڑے مشاہیرآئمہ کرام مثلاً امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام طبری رحمۃ اللہ علیہ امام داؤد ظاہری رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے اس طرح خیر القرون میں بھی بے شمار مجتہدین پیدا ہوئے جن کے رجحانات احکام کے استنباط میں مختلف ضرورتھے۔لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ احکام شریعت کی بنیاد اور ان کا مآخذ کتاب و سنت ہی ہیں ۔کتاب اللہ اصل ہے اور سنت رسول اس کی شارح ہے اس کے بعد جمہور علماء