کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 41
تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجودہ ہے۔ اس ضمن میں بتائیں کہ ارتقاء اجتہاد کے تاریخی مراحل کیا ہیں ؟ اور بقول بعض علماء اجتہاد کادروازہ اب بند ہے یا نہیں ؟بصورت اثبات آج کل اس کی ذمہ داری کون نبھا سکتا ہے؟ جواب: اجتہاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے ہی شروع ہے۔ مثلاً جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تھا تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے نماز عصر راستے میں ادا کی اور باقی نے بنی قریظہ میں جاکر ادا کی، راستے میں نماز عصر ادا کرنے والوں نے اجتہاد کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی اور ان کے اس فعل پر ناراضگی کاا ظہار نہیں فرمایا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا قاضی بناتے وقت پوچھا تھا کہ۔ اگر تمہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو کس طرح فیصلہ کروگے؟معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ کتا ب اللہ کے ساتھ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں موجود نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ تو معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حل پیش کروں گا۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی موجود نہ ہو تو پھر کیسے حل کرو گے؟تو معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں اپنی ذاتی رائے سے اس کو حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جواب سے خوش ہوئے اور ان کی تعریف کی اور انہیں یہ منصب تفویض کر کے اطمینان کا اظہار کیا۔یہ حدیث عوام میں بڑی مشہور ہے اور متعدد آئمہ کرام مثلاً امام مجدد ابو العباس احمد بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ،امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس کو جیسدکہا ہے۔(حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کی عدم موجود گی میں اجتہاد کیا تو آپ نے مطلع ہونے پر بعض کے اجتہاد کو برقرار رکھا اور بعض کی غلطی واضح کردی۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اجتہاد کرتے رہےاور زندگی میں پیش آمدہ مسائل کواسلام کی نصوص اور اس کے وسیع اصول و ضوابط کے تحت حل کرتے رہے گویا انہوں نے اسلام کے راہنما اصولوں میں ہر بیماری کی دوا اور ہر مشکل کا حل معلوم کر لیا اور واقعاتی زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجتہاد اور مسائل زندگی کو حل کرنے میں ان کا فہم و تدبر اسلام کی اس اصلی فقہ کو اجاگرکرتا ہے جو نصوص میں کمی و بیشی کئے بغیر لوگوں کی مشکلات کے حل اور ان کی ضروریات کو پورا اور انہیں مراعات فراہم کرنے میں ممتازہے۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فقہ پر عبورحاصل کرنے والا شخص اجتہاد کے میدان میں ان کی ذہانت اور تفقہ فی الدین کی ایسی ہی مثالیں پائے گااور اسے یقین ہوجائے گا کہ صحا بہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسلام کی روح کو سمجھنے میں سب سے زیادہ فقیہ تھے۔
[1] یہ روایت اجمالی معنیٰ کے لحاظ سے جید ہے کیونکہ بہت سی دیگر معتبر روایات اس کے مفہوم کی مؤید ہیں ۔ اگرچہ بند سند خاص روایت حدیث کی رو سے ضعیف ہے ۔