کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 40
فقہ و اجتہاد مترجم:عبدالجبار سلفی رکن مجلس التحقیق الاسلامی عصری مسائل کے لئے شرعی ضوابط کے تحت اجتہاد [ڈاکٹر یوسف قرضادی ڈین کلیہ شریعہ قطر یونیورسٹی سے گفتگو (] اجتہاد انسانی زندگی میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں الہامی رہنمائی کے لیے اس انتہائی ذہنی کدو کاوش کا نام ہے جس کا مدار تو کتاب وسنت ہی ہوتے ہیں لیکن مجتہد کو اس بارے میں کتاب و سنت کی واضح صریح نصوص نہ ملنے پر کتاب و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اترنا پڑتا ہے ۔اگر غور و فکر کی گیرائی اور گہرائی شریعت کی مہیا کردہ رہنمائی کی تلاش کے لیے نہ ہوتو اسے اجتہاد کی بجائے تدبیرکہتے ہیں پھر اگر چہ نبی کو بھی نت نئے پیش آمدہ بہت سے مسائل میں اللہ کی رضا معلوم کرنے کے لیے ایسی ذہنی تگ و تازسے ضرور واسطہ پڑتا ہے لیکن چونکہ اللہ عاصم اور نبی معصوم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کو استصواب کے ذریعے ایسی اجتہادی غلطی پر قائم رہنے سے بھی تحفظ فرمادیا ہے۔ اس لیے اصطلاح شرح میں نبی کا اجتہاد سنت و حدیث ہی کہلاتا ہے جو انسانی کا وش اجتہاد و فقہ کی بجائے شریعت کا حصہ ہے۔ چونکہ غیر نبی کے لیے اجتہاد میں انسانی تگ و تاز کایہ پہلو صحت و خطا کے احتمال سے خالی نہیں ہو سکتا اور بسا اوقات وہ الہامی ہدایت کے بجائے صرف دنیاوی تدبیر کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔اس لیے علمائے دین اس کے بارے میں بڑے محتاط ہیں اور وہ نہ تو ہرایرےغیرے کو اجتہاد کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی اس بارے سابقہ ذخیرہ فقہ سے ناآشنائی کو برادشت کرتے ہیں اسی بنا پر جدید دانشور طبقہ انہیں قدامت پرستی کا طعن دیتا ہے حالانکہ۔ ع۔ ز۔ تقلید عالمان کم نظر اقتداء بررفتگان محفوظ تر، تاہم اس بارے میں اسلامی معاشرے میں موجود تقلید والحاد کے دوانتہائی رویوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔اسی افراط و تفریط کا کا جائزہ اس مکالمہ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔(محدث) کیا ہر زمانے میں اجتہاد کی گنجائش ہے؟ سوال نمبر1۔اجتہاد دین کا حصہ ہے اور یہ شرعی اصول و ضوابط کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔جن سے آگا ہی حاصل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اسلام ایک زندہ و تابندہ مذہب ہے اور اس میں پیش آمدہ
[1] ماخوذ از عربی مجلہ الامة دوحہ ، قطر