کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 35
مصائب وآلام آتے رہتے ہیں اور جس حدیث میں مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اس سے اس کا ایمان،عمل اور قول مراد ہیں ۔اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (24) تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا﴾ (ابراہیم:24،25) "تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے کس طرح پاکیزہ کلمہ کو عمدہ اور پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہیں اوراس کی شاخیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے ہر موسم میں ثمر آور ہوتا ہے" اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل میں موجود اسلام کی بنیاد کلمہ شہادت کو کھجور کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں انتہائی مضبوط ہوتی ہیں نیز اللہ تعالیٰ نے مومن کے ان اعمال کو جو آسمان کی طرف جاتے ہیں ،کھجور کی بلندی سے تشبیہ دی ہے۔نیز لحظہ بہ لحظہ مون سے صادر ہونے والے صالح اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کھجور کے اس موسم میں پھلدار اورثمر آور ہونے سے تشبیہ دی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:"ضعیف مومن کادل نرم ونازک،لہلہاتی کھیتی کی مانند اورقوی مومن کادل کھجور کے درخت کی مانند ہے۔"(مسند بزار وغیرہ) یہ تشبیہ اس لحاظ سے ہے کہ نرم کھیتی کا پھل بالیاں ہوتی ہیں جو کہ حددرجہ ضعیف ہوتی ہیں ،نیز چونکہ وہ زیادہ دور اور بلندی میں نہیں ہوتیں ،اس لیے ہر ایک اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہر شخص اسے کھانے ،چوری کرنے ،جانور اسے چرنے اور پرندے بھی اسے کھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔کمزور مومن کا بھی یہی حال ہوتاہے،اکثر لوگ اس سے عداوت رکھتے ہیں ،کیونکہ شروع شروع میں اسلام بھی لوگوں کی نظر میں غریب اور اجنبی تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایک دور آئے گا کہ یہ دوبارہ لوگوں کی نظر میں غریب اور اجنبی ہوجائے گا پس جن اہل ایمان کو لوگ اجنبی ،غیر اور غریب سمجھیں ان کے لیے بشارت اور مبارک ہے کہ لوگ بالعموم ایسے اہل ایمان کو کمزور،غریب اور حقیر سمجھتے ہیں اور پھر انہیں دکھ دیتے ہیں ۔ ان کے برعکس کافر،منافق اور فاجر جوصنوبر کی مانند سخت جسم ہوتا ہے،اسے کوئی منہ نہیں لگاتا،نہ کوئی اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نہ ہوائیں اسے ہلاتی جلاتی ہیں ۔ا س کے مشکل الحصول ہونے کے سبب کوئی اسکے پھل کی خواہش یاتمنا بھی نہیں کرتا،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ،کتاب الذہد،میں عصام بن یحییٰ مصری سے منقول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ حواریین(عیسی علیہ السلام کے صحابہ) نے عیسیٰ علیہ السلام سے شکایت کی کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے اور ہمیں کھا جانا چاہتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟) تو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:"اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں لوگ ان سے نفرت کیاکرتے ہیں ۔ان کی مثال دانہ وگندم کی سی ہے،اس کا ذائقہ کیا خوب ہے اور لوگ کس رغبت سے اسے کھالیتے ہیں ۔"