کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 33
صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا،ضرور بتلائیں ،فرمایا:دنیوی طور پر کمزور،حقیر اور مغلوب لوگ(یہ جنتی ہیں ) پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں اہل جہنم کے متعلق نہ بتلاؤں ؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا:ضرور بتلائیں تو فرمایا:ہر وہ شخص جو ترش مزاج،بد اخلاق ہے(اور اس قدر مطمئن اور خوش ہے کہ) اسے کبھی سردرد بھی نہ ہوا۔" مسند احمد میں اسی مفہوم کی ایک حدیث سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔صحیحین میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تَحَاجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ ، فَقَالَتِ النَّارُ : أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ : فَمَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَغِرَّتُهُمْ ، قَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ : إِنَّمَا أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَقَالَ لِلنَّارِ : إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا ، فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى رِجْلَهُ ، تَقُولُ : قَطْ قَطْ قَطْ فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ، وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا ، وَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا " "جنت اور دوزخ کا آ پس میں مکالمہ ہوا تو جنت نے کہا:میں کیاکروں ،میرے اندر تو (دنیوی طور پر) کمزور اور حقیر لوگ داخل ہوں گے،اورجہنم نے کہا:میں کیا کروں میرے اندر ظالم اور متکبر لوگ آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" قرآن کریم میں منافقین کو بظاہر طویل ومضبوط تنوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ﴾(المنافقون :4) "اور ا گر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جسموں کو دیکھیں تو آپ کو اچھے لگیں اور اگر بات کریں تو آ پ توجہ سے ان کی بات کو سنیں گے گویا وہ دیواروں کے ساتھ کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں " چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں منافقین کے متعلق بیان کیا ہے کہ و ہ جسمانی طور پربظاہر انتہائی خوبصورت ومکمل ،پسندیدہ اور اس قدر بہترین گفتگو کرنے والے ہیں کہ دیکھنے والے کو ان کا منظر دلفریب نظر آتا ہے اور ان کی باتیں سننے والا ان کی باتیں سن کرششدر رہ جاتا اور پوری توجہ سے اور انہماک سے ان کی بات کو سنتا ہے۔مگر یہ لوگ باطنی طور پر لڑائی کے شوقین،لڑکے،جھگڑالو ہیں اور ان میں اسقدر عیوب ونقائص ہیں جو ان کے لیے مہلک ہیں ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان چیزوں سے تشبیہ دی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ۔اور وہ احساس سے خالی ہیں اور ان کے دل اتنے کمزور اور خوفزدہ ہیں کہ آسمان سے اترنے والی ہر تنبیہ(وحی) سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف نہ نازل ہو،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:یہ منافق مکمل طور پر آپ کے دشمن ہیں ،آپ ان سے بچ کررہیں ۔اسی طرح ان میں سے بظاہر آپ کے قریب رہنے والا جو کچھ اظہار کرتاہے،اس کے دل میں اس کے برعکس جذبات ہیں اور وہ چھوٹی چھوٹی بات سے ڈرتا رہتا ہے۔ البتہ اہل ایمان کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے۔ظاہری طور پر ان کے جسم کمزور اوران کی گفتگو کا انداز انتہائی دھیما ہوتا ہے۔وہ اپنے جسم کی نشونما کرنے کی بجائے ا پنے قلوب و ارواح کی تربیت کرتے ہیں ،ان کا با طن انتہائی پختہ اورمضبوط ہوتا ہے۔اس قوت کی بدولت وہ جہاد،عبادات اور دینی علوم جیسے