کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 32
ہیں اور اہل ایمان کے لیے وعظ وتذکیر کا سبب ہیں تاکہ وہ ان سے سبق سیکھیں اور ماضی کی روش ترک کرکے اپنے مستقل کی اصلاح کریں ۔" 23۔فضیل رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے: "ہر بیمار موت سے دوچار نہیں ہوتا بلکہ یہ بیماریاں انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی اصلاح کے لیے پیدا کی گئی ہیں ۔"درج ذیل آیت کریمہ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے: ﴿أَوَلا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لا يَتُوبُونَ وَلا هُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾ (التوبہ:126) "کیا یہ لوگ نہیں د یکھتے کہ انہیں ہر سال ایک دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر بھی یہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں " ایک بزرگ کا قول ہے: "تم ہر سال بیمار ہوتے اور کمزور پڑتے ہو مگر سبق نہیں سیکھتے،آخر کب تک؟" اس حدیث کے نکات: یاد رہے کہ اس حدیث میں مومن کو نرم ونازک لہلہاتی کھیتی سے اور منافق وفاجر کو بڑے بڑے مضبوط درختوں سے تشبیہ وتمثیل دینا،بہت سے نکات پر مشتمل ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان میں سے بعض اہم نکات ذکر کرتے ہیں : 1۔یہ کہ بڑا درخت ،طاقتور،مضبوط قوی ہوتا ہے۔وہ گرمی،سردی وغیرہ سےمتاثر نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس کھیتی کمزور اور نرم ونازک ہوتی ہے،اسی طرح اہل ایمان اور منافقین اور اہل جنت واہل جہنم کے درمیان بھی یہ فرق ہے۔صحیحین میں حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ألا أخبركم بأهل الجنة كل ضعيف متضعف لو أقسم على اللّٰه لأبره ألا أخبركم بأهل النار كل عتل جواظ متكبر " "کیا میں تمہیں جنتی اور دوزخی کی علامات نہ بتاؤں ؟جنتی وہ ہے جو کمزور ہو اور لوگ بھی اسے کمزور اور حقیر جانیں مگر اللہ کے ہاں اس کامقام یہ ہے کہ وہ اگراللہ پر کوئی قسم ڈال دے تواللہ اس کی بات کو پورا کردیتاہے اور کیا میں تمہیں جہنمی کی نشانی نہ بتلاؤں ؟ہر سخت مزاج،ترش رو،پیٹو اور کنجوس او تکبر کرنے والا جہنمی ہے" مسند میں ہے: عن ابي هريرة رضي اللَّه عنه ان النبي صلي اللَّه عليه وسلم قال:"ألا أنبئكم بأهل الجنة؟ قالوا: بلى يا رسول اللّٰه. قَالَ: الضعفاء المغلوبون، ألا أنبئكم بأهل النار؟ قالوا: بلى يا رسول اللّٰه،قَالَ: كل شديد جعظري، هم الذين لا يألمون رؤوسهم" "ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمہیں اہل جنت کے متعلق نہ بتلاؤں ؟