کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 30
نے مجھے باندھا کس لیے تھا اور چھوڑا کیوں ہے؟ یہ گفتگو سن کرایک شخص نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کیاہوتی ہے؟اللہ کی قسم!می تو کبھی بیمار نہیں ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اُٹھ جا! تو ہم میں سے نہیں ۔"اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی بچس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے بخار کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:میں تو بخار کو جانتا تک نہیں (یعنی مجھے کبھی بخار نہیں ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" "من سره أن ينظر إلى رجل من أهل النار أي فلينظر." "کہ جو کوئی کسی دوزخی کو دیکھنا چاہے تو وہ اسے دیکھ لے" ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب وآلام میں مبتلا ہونے کو اہل جنت اور اہل جہنم کے مابین علامت فارقہ قرار دیا ہے۔جیسا کہ سابقہ احادیث میں اسی کو مومنین اور منافقین کے درمیان علامت بیان فرمایا ہے۔ 13۔المسند میں ہے: "عن ابي هريرة رضي اللّٰه عنه ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ذكر اهل النارفقال : كل شديد جعظري، هم الذين لا يألمون رؤوسهم" "ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جہنم کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:"ہر وہ شخص جو عرشی طبیعت ،بداخلاق ہو اور اسے کبھی سردرد تک نہ ہوا،(وہ سب جہنمی ہیں )" 14۔المسند میں ہے: "انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی،اس نے اپنی بیٹی کے حسن وجمال کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں رغبت ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضا مندی کا اظہار فرمایا:وہ عورت اس کے بعد ا پنی بیٹی کی مدح کرتی رہی۔دوران گفتگو اس نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ لڑکی اس قدرصحت مند اور تندرست ہے کہ اسے کبھی سردرد نہیں ہوا اور نہ کبھی وہ بیمار ہوئی ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:"مجھے تیری اس بیٹی کی کوئی ضرورت نہیں " یہی واقعہ امام ابن ابی الدنیا نے دوسری سند سے مرسلاً روایت کیا ہے ،اس میں ہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " لا حاجة لنا فى ابنتك تجيئنا تحمل خطاياها لا خير فى مال لايرزأ منه وجسد لا ينال منه " "مجھے تمہاری بیٹی کی قطعاً ضرورت نہیں ،وہ ہمارے ہاں اپنے گناہ ساتھ لے آئے گی،جس مال اور جسم میں کوئی آزمائش نہ آئے،اس مال اور جسم میں کوئی خیر نہیں " 15۔ ابن ابی الدنیا نے قیس بن حازم سے باسند بیان کیا ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابنی بیوی کو طلاق دے دی،بعد ازاں وہ اس کی خوب مدح کیاکرتے تھے۔کسی نے کہا:ابو سلیمان!( اگر وہ اسی قدر مدح وستائش کے قابل تھی) تو آپ نے اسے طلاق کیوں دی؟فرمایا:میں نے اسے اس کے کسی دکھ یا پریشانی کی وجہ سے طلاق نہیں دی ہے بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ جب سے وہ میرے ہاں آئی کبھی بیمار نہیں ہوئی تھی ۔