کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 3
سکیں ۔بچوں کی نشوونما کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ حالیہ برسوں میں بچوں کے متعلق بین الاقوامی سطح پر انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہ تصور کہ بچوں کی مخصوص ضروریات ہیں بالآخر اس اعتقاد پر منتج ہوا ہے کہ بچوں کے اسی طرح بھرپور حقوق ہیں جس طرح کہ بالغوں کے حقوق ہیں مثلاًشہری ثقافتی اور معاشی وغیرہ 30/نومبر 1989ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے"بچوں کے معاہدے "کی منظوری دی تو یہی اعتقادعملی طور پر بین الاقوامی قانون کا حصہ بن گیا دنیا کے بیشترممالک نے"کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ"(بچوں کے حقوق کا معاہدہ) کی توثیق کردی ہے پاکستان نے بھی اس معاہدہ کی ستمبر1990ء، میں توثیق کردی۔مغربی تہذیب کی یلغار اور کچھ بدلتے عمرانی و معاشی عوامل و حالات کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ اتھل پتھل کا شکارہے۔پاکستانی معاشرہ اپنی اخلاقی اور سماجی اقدارکےتحفظ و تسلسل کی ایک زبردست جدوجہدمیں مصروف ہے قدیم و جدید قدروں کے درمیان کشمکش نے ہمارے خاندانی نظام کی بنیادوں کو متزلزل کردیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اسے قبول کئے بغیر چارہ نہیں رہا جوتیسں چالیس برس قبل دیکھنےمیں آتا تھا ۔سماجی اداروں کے عدم استحکام اور خاندانی نظام کے روبہ زوال ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں بچوں کی، تعلیم و تربیت کے مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اگر گھر سے فرار ہونے والے اغوا ہونے والے اور گم شدہ بچوں کی تعدادمیں ہمارے ہاں اضافہ ہوا ہے تویہ امرزیادہ تعجب کا باعث نہیں ہو نا چاہیے۔ حالات جس طرف جارہےہیں یہ ان کا منطقی نتیجہ ہی توہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ہمارے زرائع ابلاغ میں انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق کا بھی غیر معمولی تذکرہ ہونا شروع ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہماری قوم میں بحیثیت اجتماعی بچوں کے حقوق کے متعلق شعورمیں کوئی انقلابی تبدیلی رونما ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ایک جنونی قاتل جاوید مغل کی طرف سے سوبچوں کے قتل کی انسانیت سوزاور لرز ہ خیزواردات کا منظر عام پر آناتھا اس ہولناک واقعے نے ہمارے سوئے ضمیر پریکا یک کوڑے برسائے انسانی تاریخ کے اس عدیم النظیر بربریت کے مظاہرے نے اقتدار کے ایوانوں میں قوی دولت کے مزے اڑانے والے حکمرانوں کو بھی حواس باختہ کردیا۔ حکومتی اداروں کی منجمد مشینری کے کل پرزوں میں وقتی طور پر ارتعاش کی لہر پیدا ہوئی۔ ہمارے صحافیوں کو سنسنی خیز فیچر چھاپنے کا ایک نادر موقع میسر آیا۔این جی اوز نے اسے اپنی نمود و نمائش کا سنہری موقع سمجھتے ہوئے سیمینارزکاایک سلسلہ منعقد کیا اس طرح انہیں پاکستانی معاشرہ کو"مزید وحشی"بناکر پیش کرنے کاجواز ہاتھ آگیا اور یہی جواز کروڑوں روپے کے اضافی فنڈز کی وصولی کا بہترین بہانہ بن گیا ۔ جاوید مغل کو عدالت نے عبرت ناک سزا سنائی ۔آہستہ آہستہ یہ واقعہ گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔