کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 23
" أَشَدُّبَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ " کہ"سب سے زیادہ مصائب انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوتے ہیں ،پھر ان کے ساتھیوں اور پھر ان کے ساتھیوں پر"! اب دیکھنا یہ ہے کہ ان محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرکیا مصائب نازل ہوئے جنھوں نے جہاد کو یکسر موقوف کرکے عیش وآرام کوترجیح دی اور کھانے پینے کی کئی بدعات رسومات کو شریعت کادرجہ دے دیا توکیا صرف زبانی محبت کادم بھرنے ،نبی کی شان میں غلو کرنے،جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اورجلوس نکالنے سے جن میں سے ہر ایک فعل شریعت مطہرہ کے یکسر خلاف ہے۔یہ لوگ نبی کی دعوت کرسکتے ہیں ؟اور اس سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہیں قرآن وسنت کی تعلیم کس طرح راس آسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام اہل سنت نے"کنزالایمان" کے نام سے قرآن کریم کا ترجمہ کیا تو اس ترجمہ میں بریکٹوں میں ایسے الفاظ کا اضافہ کردیاکہ عقل دنگ رہ جاتی اور انسان سرپیٹ کررہ جاتا ہے۔مثلاً آپ نے ہر مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبشر کے بجائے نوراورعالم الغیب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر ان دو باتوں کو ہی درست تسلیم کرلیا جائے تو جہاں آپ کی بعثت کامقصد ہی سرے سے فوت ہوجاتا ہے۔ وہاں آ پ کی ذات پر ایسے ایسے اعتراضات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر تمام اُمت مسلمہ بھی ان اعتراضات کے جوابات سے عہدہ برآہونا چاہے تو کبھی نہ ہوسکے۔ بعض دفعہ ہمیں بریلوی علماء کے اس تعصب پر سخت افسوس آتا ہے کہ کبھی تو اس آیت: ﴿ إِنَّمَآ أَنَاْ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾کو وہابیوں والی آیت کہہ دیتے ہیں ۔ اور عموماً نماز میں ایسی آیات پڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور کبھی ﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا﴾ کے متعلق یہ کہتے ہیں ۔ کہ اس آیت کی بس تلاوت ہی لازم ہے۔اس کا ترجمہ نہیں ہے۔اور حقیقی مطلب اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے۔جہاں یہ صورت حال ہوتو کیا آپ یہ توقع کرسکتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن کریم کے ترجمہ کی طرف توجہ دیں گے جبکہ اس طبقہ کو قرآن وسنت کی خالص تعلیم کی ضرورت ہی نہیں ہے؟۔۔۔چنانچہ قرآن نافہمی کے اسباب سے سب سے بڑا سبب عاشقان رسول کایہ رویہ ہے! غیر مسلموں نے مسلمانوں کوکمزور کرنے اورانہیں اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے کےلیے جو کچھ کہا،وہ ایک الگ داستان ہے یہاں ہم صرف ان اسباب کا جائزہ لے رہے ہیں جن کی وجہ سے گھر کوگھر ہی کے چراغ سے آگ لگ گئی ۔بہرحال یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قرآنی تعلیمات کی ترویج کے سلسلے میں ہمیں اغیار کی طرف سے اتنانقصان نہیں پہنچا جتنااپنوں نے پہنچایا ہے بقول شخصے۔ من از بیگا نگاں ہرگز نہ نالم کہ من ہرچہ کردآں آشنا کرد کہ"میں بیگانوں کارونا نہیں روتا،میرے ساتھ جوکچھ کیا ہے ،اپنوں ہی نے کیا ہے" اور یہی وہ حقیقت ثابت ہے جس کی گواہی خدا کے حضور قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیں گے: