کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 22
کے عقائد سے ٹکراتے تھے۔ محبت کامیعار:جب کوئی قوم اپنے نبی کی تعلیم اور اس پر عمل سے عاری ہوجاتی ہے تو وہ"پدرم سلطان بود" کےمصداق ا پنے نبی کی شان کو بڑھاچڑھا کر بیان کرنا شروع کردیتی ہے۔یہی کچھ پہلی امتوں نے کیا اور یہی روش عاشقان رسول نے اختیار کی۔اس فرقہ کے پیشوا امام اہل سنت صرف عالم ہی نہ تھے شاعر بھی تھے۔آپ کے نعتیہ کلام کے مجموعہ کا نام"حدائق بخشش"ہے۔ان نعمتوں میں آپ نے اکثر مقامات پرعبد اور معبود کے فرق کو یکسر ختم ہی کردیا ہے۔مثلاً: میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہوا مالک کے حبیب یعنی محبوب ومحب میں نہیں کہ میراتیرا یعنی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ مالک(خدا) کے حبیب ہیں تو بس انہیں بھی مالک ہی سمجھتا ہوں کیونکہ محبوب اور محب کی ملکیت(ملکوت السموات والارض) مشترکہ ہی ہوتی ہے۔ گویا اب حب رسول کا معیار یہ ٹھہرا کہ جو کوئی شخص اس پر خطر وادی میں جتنی زیادہ جولانی دکھائے،اتنا ہی زیادہ وہ محب اورعاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔چنانچہ آپ کے معتقدین اس میدان میں آپ سے بھی بازی لے گئے،جس کی صدہا مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ افسوس ان لوگوں نے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامعیار وہ قائم کیاجس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایاتھا۔اس کے برعکس جومعیار خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے ذرا وہ بھی سنئے اور غور فرمائیے کہ دونوں میں کس قدرتضاد ہے: " عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " انْظُرْ مَا تَقُولُ " ، قَالَ : وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ : " إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا ، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ " وفي رواية ان الفقر الي من يحبني منكم اسرع من السبيل من اعلي الوادي" "حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کیا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"سوچ لو،جو کہہ رہے ہو؟اس نے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویٰ کو دہرادیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھا تو پھر فقر اور اس کے ساتھ آنے والی تکلیفوں کے لیے لوہے کاایک جھولا تیار کرلو،کیونکہ مجھ سے محبت رکھنے والے کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتاہے جیسے رکاہوا پانی نشیب کی طرف جاتاہے"اورایک ر وایت میں یہ لفظ ہیں کہ"تم میں سے جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اس کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسے کہ وادی کی بلندی سے پانی نشیب کی طرف جاتا ہے" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمحبت رکھنے و الے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین پرمصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اورجس حدتک کسی نے محبت کے دعویٰ کیا اسی حد تک وہ ضرور متاثر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے: