کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 20
انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کے نام پر ایسے عقائد کی بناڈالی جو اس سے پہلے تمام امت مسلمہ میں کبھی نہ پائے گئے تھے۔مثلاً جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر وناضر ہے،اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر جگہ حاضر وناضر ہیں یا جس طرح اللہ تعالیٰ کو مکمل طور پر غیب کاعلم ہے ،ایسے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے اور آپ کاعطائی۔۔۔ذاتی اور عطائی تقسیم کے موجد بھی آپ ہی ہیں ! یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ نور تھے،نیز یہ کہ اہل قبور پکارنے و الے کی پکار کو سنتے اور اس کی حاجت روائی کی استطاعت رکھتے ہیں ۔چونکہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ سب کچھ کیا جارہاتھا لہذا جاہل عوام میں انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ نئے امام:یہ لوگ چونکہ اہل سنت والجماعت کہلاتے اور فقہ حنفی ہونے کے دعوے دار کہلاتے تھے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایسے مشرکانہ عقائد کے سخت د شمن تھے ،لہذا ان لوگوں نے واضح الفاظ میں اعلان کردیا کہ وہ صرف فقہی مسائل کی حد تک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ،عقائد میں ان کے مقلد نہیں ہیں ۔ یہ لوگ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے بریلوی حنفی کہلائے اور اسی بناء پر انہیں امام اہل سنت کہا جاتا ہے۔اورجوحنفی اپنے دستور سابق پر قائم رہے وہ حنفی دیو بندی کہلائے۔ انگریز کی چال بہت کامیاب رہی،دیوبندی اوربریلوی حضرات میں بحث مباحثے،مناظرے،سرپھٹول اورتکفیر بازی شروع ہوگئی۔بریلوی حضرات تو جماعت اہل حدیث کو جن میں سے اکثر شاہ اسماعیل شہید کی تحریک کے کارکن تھے،وہابی کہتے ہی تھے،اب دیوبندیوں کو بھی وہابی کہناشروع کردیا۔گویا ہندوستان کے تقریباً تمام مسلمان تفرقہ بازی،انتشار اور آپس کی تکفیر کانشانہ بن کر رہ گئے۔ تکفیربازی:تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ نے 1898ء میں ایک فتویٰ بعنوان"اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالسلام"شائع کیا جس میں ہندوستان کو محض اس بناء پردارالسلام قرار دیا گیا تھا ،کہ یہاں مسلمانوں کو نجی طور پر نماز،روزے اور حسب شرع نکاح وطلاق کی اجازت ہے ۔اس فتویٰ سے انگریز کے سیاسی استحکام کو بہت تقویت پہنچی،مجاہدین نے ہندوستان کو دارالحرب سمجھ کر ہی تحریک شروع کی تھی لہذا وہ سب کافر بلکہ یہودیوں سے بھی بدتر قرار دیے گئے۔تمہید ایمان اور حسام الحرمین میں تو ا علیٰ حضرت خان صاحب گالی گلوچ پر اُتر آئے چنانچہ صفحہ 73سے 83 تک پورے دس صفحات پر مشتمل گالیوں کی ایک طویل فہرست مرتب کی ،جوقابل دید ہے۔"دوزخ کے کتے" آپ کاتکیہ کلام ہے صفحہ 12 مناظرانہ ر نگ میں اُلوگدھے اورسور تک مخالفین کو کہہ دیا اور کئی جگہ وہابیوں کو واجب القتل قرار دیا بلکہ یہاں تک لکھا کہ ایک وہابی کوقتل کرنا سو کافر کے قتل سے افضل ہے اور بادشاہ اسلام اس کا مجاز ہے۔۔۔صفحہ 68پر لکھا: