کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 18
کیونکرگمراہ کیا جاتاہے؟ایسے لوگ جنھوں ن عمر بھر کبھی نمازنہ ادا کی ہو،ساتویں دن دربار کی حاضری کیوں ضرور سمجھتے ہیں ؟ شفاعت،نجات اور جنت کے سرٹیفیکٹ کہاں کہاں سے ملتے ہیں اور یہ عطا کنندگان کون اور کیسے لوگ ہیں ؟بے دین اور بدکار مجادوں کوفحاشی اور بدکاری کے کیسے کیسے مواقع میسر آتے ہیں ۔بھنگ اور چرس کادور کیسے چلتا رہتا ہے؟ اب آ پ خود غور فرمائیے کہ شریعت مطہرہ میں ایسی باتوں کی گنجائش کہاں ہے؟ظاہر ہے اگر مریدان باصفا کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرادیا جائے تو اس مکروہ کاروبار کاوجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ لہذا اس طبقہ نے اپنی بقا اور عافیت اسی میں سمجھی کہ عوام کو قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ ہی رکھا جائے کہ نہ ر ہے بانس نہ بجے بانسری! رمضان 8 ھ میں جب مکہ فتح ہوگیا اور عرب کا بیشتر علاقہ اسلامی اقتدار کے زیر نگین آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ماہ مبارک میں جہاں عزیٰ،لات اور منات کے بتوں کو پاش پاش کرنے کے لیے اعلیٰ الترتیب حضرت خالد بن ولید،حضرت عمروبن عاص اور حضرت سعید بن زید رضوان اللہ عنہم اجمعین کی قیادت میں چھوٹے چھوٹے لشکر روانہ کیے،وہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں ایک وفد اس غرض سے بھی بھیجا کہ مزارات کو منہدم کردیاجائے اور جو قبریں زمین سے ایک بالشت سے زیادہ اونچی ہوں خواہ پختہ ہوں یاکچی انہیں زمین کے برابر کردیا جائے۔ اس کے برعکس ،ہندوستان میں بہت سے ہندو صوفیاء کرام کے توسط سے مسلمان ہوئے ،جن کے ہاں ایسے لاتعداد آستانے پہلے سے موجو تھے اور چونکہ شرعی تعلیم کی طرف پوری توجہ نہ دی گئی لہذا ان نو مسلموں کے فاسداعتقادات اور افکار ونظریات میں کوئی کمی نمایاں رونما نہ ہوسکی اور رونما بھی کیونکر ہوتی۔پہلے وہ مندروں میں بتوں کے سامنے سربسجود تھے تو اب مزارات ان کے لیے سجدہ گاہ بن گئے تھے ،پہلے دیوتاؤں کے سامنے دست سوال دراز کیاجاتا اب صوفیاء اور پیروں نے ان کی جگہ لے لی،جن سے وہ مرادیں مانگنے لگے۔ان حالات میں اسلام کی پابندی اوراعمال حسنہ کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی تھی ،لہذا وہ روحانی مدارج،شرکیہ وضائف،قبروں پر چلہ کشی اور مرشد کے محتاج ہوکررہ گئے،اس ظلمت کدہ میں شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (مجدد الف ثانی ،متوفی 1034ھ) نے حق کی آواز بلند کی اور ان مشرکانہ افکار ونظریات پر کاری ضرب لگائی،ان کی بھر پور کوششوں سے یہ فتنہ کسی حد تک دب گیا لیکن چونکہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے کوئی موثر کوشش نہ کی گئی تھی۔لہذا اس فتنہ نے پھر سے ا پنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے۔بالآخر اس مرض کی صحیح تشخیص کی سعادت حضرت شا ہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1176ھ) کے حصہ میں آئی،انہوں نے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قرآن مجید کافارسی زبان میں اولین ترجمہ شائع کرادیا۔