کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 17
ع۔بہ مے سجاہ ر نگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نبوداز راہ ورسم منزل ہا "اگر تجھے بزرگ پیر ا پنے مصلیٰ کوشراب میں رنگین کرنے کا حکم دے تو ضرور ایسا کر کہ سالک (سلوک کی) منزلوں کے آداب ومراسم ناواقف نہیں ہوتا" ظاہر ہے کہ قرآن وسنت میں ایسی بیہودہ باتوں کی کوئی گنجائش نہیں لہذا اگر قرآن کی تعلیم عام ہوجائے تو ان کے کاروبار پر کاری ضرب پڑتی ہے۔لہذا ان لوگوں نے عمداً یہ وطیرہ اختیار کیا کہ اپنے مریدوں کو قرآنی تعلیمات سے بے خبر رکھیں اور انہیں غفلت کی نیند سویارہنے د یں ۔ غوث،قطب،ابدال:یہ بات اس سے بھی آگے بڑھتی گئی اور یہ چیز بھی عقیدہ میں شامل کردی گئی کہ اس دنیا میں ہروقت 313 نجیب موجود رہتے ہیں پھر ان سے 70 نقیب ہوتے ہیں ان میں سے 40 ابدال ہوتے ہیں ۔ پھر ان میں سے 7 قطب ہوتے ہیں ۔ان میں سے 4اوتار اور پھر ان میں سے صرف ایک غوث کا اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے جو ہمیشہ مکہ مکرمہ میں رہتاہے،جب بھی اہل زمین پر کوئی اراضی یا سماوی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ نجباء کی طرح رجوع کرتے ہیں ۔نجیب یہ درخواستیں نقیبوں کو پیش کرتے ہیں بالآخر یہ درخواست درجہ بدرجہ غوث تک پہنچتی ہے جس کا علم اللہ کے علم کے برابر ہوتا ہے اور اس کی قدرت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کم نہیں ہوتی اور وہ ان مصائب کو دور کردیتا ہے۔العیاذ باللہ! یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان عقائد نے کہاں سے راہ پائی اور ان بیہودہ عقائد کے مآخذ کیا ہیں ،قرآن وحدیث اور سیرت کی کتابوں میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوغوث اول کہا جاتاہے تو آخر تاریخ وسیر کو کتب کیوں خاموش ہیں ؟ پھر ان کی اقامت بھی مکہ مکرمہ میں نہ تھی ،پیر عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو غیاث المستغیثین یا سب سے بڑے غوث سمجھے جاتے ہیں ،ساری زندگی بغداد میں رہے ،ان کا مولد ومدفن بھی یہ جگہ ہے تو پھر جب وہ غوث کی شرائط ہی پوری نہیں کرتے تو غوث کیونکر ہوگئے؟ ان مذکورہ غوثوں کےعلاوہ آج تک کون کون سے غوث پیداہوئے اور آج کل مکہ مکرمہ میں کون صاحب غوث کے مقام پر فائز ہیں ۔یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ان لوگوں کے پاس بھی نہیں ہے جو اس کے دعوے دار ہیں اگر قرآن وسنت کی تعلیم عام ہوجائے تو ریب کے تودہ پر تعمیر شدہ یہ عمارات دھڑام سے زمین پر آگرتی ہیں ،لہذا ان غلط عقائد کاتحفظ اسی بات میں تھا کہ جاہل عوام کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ مزارات اورآستانوں کاوجود:اس کاایک اور پہلو مزاروں اور آستانوں کاوجود بھی ہے جو قرآنی تعلیمات عام ہونے کی صورت میں یقیناً خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اگر آپ کو کسی مزار یا آستانے پر جانے کااتفاق ہوتو آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ وہاں مشرکانہ ر سوم کس کس طور پر ادا کی جاتی ہیں ۔عقیدتا لوگوں کو