کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 16
دوسرا سبب ،پیران عظام کے مخصوص نظریات: (الف) ولایت کا میعار :اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں اسلام زیادہ تر صوفیاء کرام کے ذریعہ سے ہی پھیلا۔یہ لوگ خود عموماً عالم باعمل تھے لیکن بعد میں آنے والے جانشین قرآن وسنت کی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے چلے گئے اور اس کیوجہ غالباً وہی ہے جو پہلے ذکر کی جاچکی ہے۔ ولایت کا میعار کرامات اور خوارق عادات واقعات قرار پاگئے اور یہی اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی سب سے بڑی دلیل ہے ،کرامات کے ظہور کے لئے دیندار اور متقی ہوناکجا،مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں کیونکہ ہندوؤں کے جوگیوں اور سادھوؤں سے بھی ایسی کرامات اورخوارق عادات واقعات کا ظہور اکثر ہمارے اولیاء کرام کے تذکروں میں موجود ہے۔یہی ہندوانہ تاثر مسلمانوں نے بھی اپنایا اور ساتھ ہی ساتھ یہ آیت بھی چسپاں کردی:﴿ أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾(10/62) "سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے" لیکن علم کی کمی کی وجہ سے یہ خیال کسی کو بھی نہیں آتاتھا کہ قرآن کریم جن لوگوں کواولیاء کہتا ہے ان کے اوصاف کیا ہیں ؟کیا وہ اولیاء یہی لوگ ہیں ،جوخوارق عادت واقعات کے حصول کے لیے قبروں پر مراقبے کرتے اور مختلف قسم کی چلہ کشی کواپنا رویہ بناتے ہیں ؟شریعت میں تو سرے سے مزاروں کاوجود،مراقبے اور چلہ کشی ہی ممنوع ہے ،تو پھر یہ لوگ اولیاء کیسے ہوگئے؟اس کے برعکس قرآن مجید ایسے لوگوں وک اللہ تعالیٰ کے دوست قرار دیتا ہے۔جو مومن ،متبع شریعت ہوں ،تقویٰ کے درجے پر فائز ہوں ،آیت مذکورہ بالا سے اگلی آیت یوں ہے:﴿ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ (10/62) "(یعنی) وہ جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے" شریعت ،طریقت اور معرفت کا عقیدہ:اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہی تھا کہ مریدوں کو قرآن کی تعلیم سے نا آشنا رکھا جائے،چنانچہ مریدوں کو یہ ذہن نشین کرایاگیا کہ شریعت جو قرآن وحدیث میں مذکور ہے۔یہ محض ابتدائی اور سطحی درجہ ہے۔اس سے اگلی سٹیج،حقیقت،اور سب سے اعلیٰ درجہ معرفت ہے۔اور یہ بھی باور کرادیاگیا کہ پیران عظام معرفت کے بلند تر مقام پر فائز ہوتے ہیں ۔لہذاانہیں شریعت کی حدود قیود سے پرکھنا قطعاً درست نہیں ہے۔یہ لوگ صاحب حال ہوتے ہیں لہذا ان کے اعمال وکردار کا ظاہری شریعت کے احکام سے مقابلہ کرنا ان کی شان کے خلاف ہے حتیٰ کہ اگر یہ پیران باصفا کسی ایسی بات کا حکم دیں ۔جو شریعت کے سراسر خلاف نظر آتی ہوتو بھی مرید پر لازم ہے کہ وہ بلاچون وچرا اس کی اطاعت کرتا چلاجائے۔ صرف اسی صورت میں وہ سلوک کی منازل طے کرسکتا ہے،حافظ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شیرازی متوفی 791ھ نے انہی افکار ونظریات کو ا پنے درج ذیل شعر میں قلم بند کیا ہے: