کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 15
غوروفکر کی ضرورت ہی کو ختم کردیاگیا تو اس کی صلاحیت کہاں باقی رہتی؟اس صور تحال کا نقشہ پروفیسر محمد سلیمان اظہر(بحوالہ تاریخ فرشتہ) سیرت محمد عبدالوہاب میں یوں کھینچتے ہیں : "عربی سے صرف چند لوگ ہی آشنا تھے اور انہوں نے جاہل عوام کو بھیڑوں کا گلہ بنائے رکھنے کے لئے عربی میں موجود اسلامی اُمور پر اجارہ داری قائم کررکھی تھی ،ملکی زبان میں کتاب وسنت کے نہ تراجم تھے نہ شروحات لوگ کبھی کبھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔لیکن اس میں کیا ہے سراسر ناآشناتھے۔تقلید جمود کی بندشیں ا س قدر مضبوط ہوچکی تھیں کہ ایک مناظرہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء نے جب اپنی تائید میں ایک روایت بطور استدلال پیش کی تو ہندوستان کے سب سے بڑے فقیہ خواجہ رکن الدین صاحب نے کہا:میں بھی مقلد ہوں اور آپ بھی مقلد ہیں ۔اس لیے حدیث کی کیا ضرورت ہے ،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش فرمایئے" ظاہر ہے کہ ایسا عقیدہ قرآن وسنت کے یکسر منافی ہے۔صحابہ اور تابعین آخر کس امام کے مقلد تھے؟ جبکہ فقہ کی تدوین ہی بہت بعد میں ہوئی۔نیز آیت: ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ کے مصداق دین کی تکمیل بہت پہلے ہوچکی تھی اور اسلام مکمل صورت میں موجود تھا۔ بایں ہمی چونکہ اللہ تعالیٰ نے تاقیامت اپنے دین کی حفاظت کاذمہ لے رکھا ہے لہذا تاریک سے تاریک دور میں بھی علماءحقہ کی ایک جماعت نے ،خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو،قرآن وسنت کو سینہ سے لگائے رکھا اورباطل سے برسرپیکار رہی،حقیقتاً یہی جماعت اہل سنت تھی،جو بعد میں اہل حدیث کے نام سے موسوم ہوئی۔اہل والجماعت کا لفظ ابتداء اہل تشیع کے مقابلہ میں استعمال ہوا۔شیعہ حضرات کے سوا باقی تمام مسلمان اپنے آپ کو اپنے اماموں سے منسوب کرنے لگے۔یہ لوگ اختلافی مسائل میں اپنے اماموں کی رائے کو حدیث پر ترجیح دیتے تھے۔لہذا مقلد اور اہل الرائے کہلائے،اور جو مسلمان کسی خاص امام کے مقلد نہ تھے،وہ غیرمقلد اور اہل رائے کے مقابلہ میں اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئے۔گویا نام کوتو یہ سب مسلمان اہل سنت تھے مگر عملاً اہل سنت یہی اہل حدیث رہ گئے۔یہ جماعت دینی مدارس میں ر ائج درس نظامی کی اس مصلحت سے خوب واقف تھی،لہذا اس کے خلاف صداء احتجاج بلند کرتی رہی۔جناب حافظ نذر محمد صاحب پرنسپل شبلی کالج،لاہور اپنی تصنیف"مدارس عربیہ کا جائزہ" میں در س نظامی میں اصلاحات کی تجاویز کے تحت صفحہ 607 پر یوں رقم طراز ہیں : "درس نظامی پر بیرونی حلقوں سے مسلسل یہ اعتراض رہا ہے کہ مدارس اہلحدیث کے علاوہ باقی تمام مدارس میں قرآن وحدیث کو صرف آخری سالوں میں سبقا ً سبقاً پڑھایا جاتا ہے حالانکہ دین کے یہی اصل الاصول ہیں ،کسی نہ کسی نہج پر ان کامطالعہ ابتداء سے شروع ہوناچاہیے"