کتاب: محدث شمارہ 240 - صفحہ 14
سنت سے نتائج اخذ کرنے میں وہی روش اختیار کرتا ہے۔ جو اس کے نصاب تعلیم کی تر ترتیب کا منطقی نتیجہ ہونا چاہیے۔چنانچہ وہ اپنے امام سے ہٹ کرکچھ سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتا اور اگر کہیں اسے الجھاؤ یا تضاد نظر آتا بھی ہے تو وہ اس کی تحقیق کی ذمہ داری اپنے امام کے سرڈال دیتا ہے۔ کیونکہ تقلید کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے۔ " والتقليد قبول غير بلا دليل فكانه جعل قلادة في عنقه" "تقلید کسی کے قول کو بغیر دلیل کے قبول کرلینے کا نام ہے۔گویا کہ مقلد نے اپنی گردن میں اس کی اطاعت کا پٹہ ڈال لیا"(شرح قصیدہ انمالی از ملاعلی قاری حنفی) اس تعریف سے واضح ہےکہ مقلدین ذہنی طور پر اپنےامام کو امام نہیں بلکہ پیغمبر سمجھتے ہیں کیونکہ پیغمبر ہی ایک ایسی ہستی ہوسکتی ہے۔ جس کی بات بلادلیل قبول کی جائے۔پیغمبر کےعلاوہ کوئی اور ہستی معصوم اورخطا سے پاک نہیں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس تحقیق کی ذمہ داری امام کے سرڈالی جاتی ہے وہ خود اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لے قطعاً تیار نہیں ہیں ،ہمارے ہاں زیادہ تر حنفی مذہب ہی رائج ہے۔اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ"جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے!"۔۔۔بلکہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ "اگر حدیث مل جائے تو میرے قول کو دیوار پر پٹخ دو" اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے معروف شاگردوں اما م محمد اور امام زفر نے بہت سے مسائل میں آپ سے اختلاف کیا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ امام موصوف کے ان اقوال کے باوجود ان کے مقلدین،حدیث کی تو دوراز کارتاویلات میں مشغول ہوجاتے ہیں یا اس کی ذمہ داری امام کے سرڈال کراسے نظر انداز کردیتے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کو چھوڑنا انہیں قطعاً گوارا نہیں ہوتا۔ اگر فقہ سے پہلے قرآن وحدیث پڑھایا جائے تو طالب علم کےذہن میں پہلی چھاپ قر آن وحدیث کی ہوگی۔مسائل کے حل اور نتیجہ نکالنے میں وہ فقہ سے مدد تو لے گا لیکن عملاً مقلد نہیں رہ سکتا،لہذا تقلید کے عقیدہ کی حفاظت کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم سب سے آخر میں رکھی جائے۔ فقہ کی تالیف کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں مسائل حاضرہ کا قیاس اور اجتہاد کے ذریعہ صحیح حل تلاش کیاجائے۔ائمہ فقہاء رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے پیش نظر اپنے اپنے دور میں فقہ کو مرتب کیا اور اس دور کے مسلمانوں نے بھی یہی کچھ سمجھا۔لیکن بعد کے مسلمانوں نے آئندہ اجتہاد کو شجر ممنوع قرار دے کر ہر چہار ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی اتباع کو اسلام کاجزو بنادیا۔پانچویں صدی ہجری میں یہ عقیدہ اتنا راسخ ہوگیا تھا کہ جو شخص مخصوص امام کا مقلد نہ ہوتا،اسے بطور گالی یہ کہاجاتا تھا کہ وہ چاروں مذاہب سے باہر ہے،بالفاظ دیگر اس کا اسلام ہی مشکوک ہے۔ اس جامد تقلید نے مسلمانوں کے حواس معطل کردیے۔قرآن وحدیث کو پڑھنے پڑھانے اور اس میں