کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 80
"کسی ملک کے نظام حکومت میں عام طور پر ایک بنیادی نظریہ اور روح کار فرماہوتی ہے جس نظریے اور فکر کو اس ملک کے نظام حکومت کی روح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔کوئی بھی قانون بناتے وقت کوئی بھی پالیسی وضع کرتے وقت اور کوئی بھی انتظامی قدم اٹھانے کے موقع پر اس بنیادی نظریہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔۔۔اسلامی نظام حکومت کی روح اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہے۔" آپ نے تبصرہ کرتے ہوئے ص56پر تحریر کیاہے۔اسلام انسانی تجربات کے ارتقا کا مخالف نہیں ہے۔البتہ ان تجربات کو الہامی ضابطوں کی قیود کا پابند کرتا ہے"میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں ۔چنانچہ جدید اطراز حکومت کے تذکرے کے بعد ایک حوالے سے میں نے تحریر کیا تھا ۔(ص58) "حفظ الرحمٰن سیوہاروی خلافت کےنظام کو قرآن و حدیث کے اساسی اصولوں کے مطابق چلانے پر زور دینے کے ساتھ ہی مزید وضاحت کے لیے تحریر کرتے ہیں اسلام میں قیاس صحیح اور اجتہاد کو بہت اہم جگہ حاصل ہے اور اس کا صحیح طریق کاریہ ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اصول اور اساسی قوانین میں ادنی ساتغیر بھی نہیں ہو سکتا اور ان ہی قوانین کی روشنی میں ایسی جزئیات اور تفصیلات اور ایسے احکام استخراج واستنباط کئے جائیں جو ایک جانب تو ان اساسی اصولوں کے ماتحت ہوں اور دوسری جانب مقتضیات وقت اور حادثات کابہترین حل کرتے ہوں ۔" قرآن و سنت کا پابند رہتے ہوئے جدید اطراز حکومت سے استفادہ کرنے میں میری فکرو سوچ شاید وہی ہو جو آپ کے مضمون "انٹرنیٹ اور اسلام "میں جدید ذرائع ابلاغ سے استفادہ کے سلسلے میں پائی جا تی ہے اس مضمون جو اسی جون کے محدث میں شائع ہوا ہے میں آپ نے تحریر کیا ہے۔ "دوسری طرف ہمارے بعض پڑھے لکھے دیندار حضرات ایسے بھی ہیں جو انٹرنیٹ کے مضراثرات سے خائف ہو کر اس سے پہلو بچانے ہی کا مشورہ دیتے ہیں اس ساری بات چیت کا مقصد یہ ہے کہ دیندار طبقہ جدید سائنس سے استفادہ کرنے میں کوتاہی بلکہ مجرمانہ غفلت کاشکار ہے ممکن ہے بعض لوگ اسے مادی وسائل کی کمی کی بناپر حاصل نہ کر پاتے ہوں لیکن بحیثیت مجموعی دینی طبقہ کا رجحان بوجوہ جدید سے گزیر اور نئی آنے والی چیزوں سے ہچکچاہٹ کا رہا ہے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان جدید اشیاء کی افادیت تسلیم کر کے ان کا استعمال کرتے رہے ہیں اسلامی نقطہ نظر سے اُمت کے معروف مفتیان کرام کے فتاویٰ آجانے کے بعد ان وسائل علم سے لاپرواہی کا کو ئی جواز نہیں بنتا ۔ہم اس سے قبل اپنے مضامین میں لکھ چکے ہیں کہ سائنسی ایجاد آلہ کا کوئی دین نہیں ہوتا دین تو اس کے استعمال پر اس سے وجود میں آنے والے رویوں پر گرفت کرتا ہے۔۔۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں جدید سے جدید زمانے کی سہولیات سے استفادہ کرنے کی گنجائش موجودہے اس کے باوجود کہ اسلام کی درست اور حقیقی تعبیر قدیم سے قدیم مصادر شریعت سے ہی میسر آسکتی ہے"(محدث :صفحہ 72،73) مؤد بانہ گزارش صرف اتنی ہے کہ آپ کے تبصرہ کے مطابق اگر میرے مضمون میں "سیکولرازم اور اباحیت"کی فکر پائی جاتی تھی تو دین کے "نصیحت و خیر خواہی"کے اصول کے تحت شاید زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ مضمون شائع کرنے سے پہلے اصلاح کی تجاویز کے ساتھ اسے واپس بھیج دیا جا تا اور اگر اصلاح کی تجاویز کے لیے آپ کی غیر معمولی مصروفیات رکاوٹ تھیں تو پھر اسے شائع ہی نہ کیا جاتا ۔والسلام (مخلص پروفیسر عبدالرؤف بالمقابل عیدگاہ ہسپتال روڈ مظفر گڑھ )