کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 77
جامع ترمذی اور امام ترمذی کے متعلق بہت ضروری اور غایت درجہ مفید مباحث مذکور ہیں ۔ باب ثانی جن نادر اور قیمتی نوادر پر مشتمل ہے،ان کاجاننا جامع ترمذی کے طالب علم کےلیے از حد ضروری ہے۔ان مباحث کو پڑھے بغیر جامع ترمذی کا پڑھنا اور پڑھانا بے معنی اور لاحاصل ہے۔مقدمہ میں مختلف مناسبتوں سے155/ائمہ حدیث وتفسیر وفقہ ولغت کے تراجم بھی آگئے ہیں اس کی تمام خوبیوں کااندازہ شروع میں ملحقہ فہرست سے ہوجاتاہے جو 12 صفحات پر مشتمل ہے۔آخر میں مولانا مبارکپوری کا مختصر تذکرہ بھی ہے۔[1] (صفحات 112) 3۔نور الابصار(اردو):اس کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ بجز پانچ قسم کے لوگوں کے ہر بالغ مسلمان پر نماز جمعہ فرض ہے چاہے شہر کا ہویا دیہات کا(صفحات 80، مطبع سعید المطابع بنارس 1319ھ) 4۔تنویر الابصار فی تائید نور الابصار (اردو): یہ کتاب"نور الابصار" کی تائید میں ہے۔ 5۔ضیاء الابصار فی تائید نور الابصار(اردو) :یہ کتاب بھی نور الابصار کی تائید میں ہے اور شوق نیموی کی کتاب تبصرۃ الانظار کا جواب ہے(مطبوعہ) 6۔کتاب الجنائز(اردو):اس کتاب میں احادیث صحیحہ کی روشنی میں جنازے کے احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں ۔(صفحات 112،طبع روم نای پریس لکھنوء1950ء) القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید(اردو):اس رسالہ میں تکبیرات عیدین کے متعلق واضح کیا گیا ہے۔(مطبوعہ) 8۔تحقیق الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام(2جلد) اردو:اس کتاب میں نہایت بسط ک ساتھ وجوب قراءۃ خلف الامام کو بدلائل ثابت کیاگیا ہے اوراحناف کے دلائل عدم وجوب قراءۃ کو نقل کرکے ہرایک کےجواب دئیے گئے ہیں ۔(صفحات مجموعی 2جلد:338۔مطبع محبوب المطابع دہلی،جلد اول 1320ھ جلد دوم 334ھ) 9۔رسالہ عشر(اردو،غیر مطبوعہ) 10۔رسالہ درحکم بعد صلواۃ مکتوبہ(اردو،غیر مطبوعہ) 11۔اعلام اہل الزمن من تبصرۃ آثار السنن(اردو):یہ رسالہ مولوی ظہیر احسن شوق نیموی کی کتاب "آثار السنن" کے جواب میں ہے۔اس میں صرف ان احادیث کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔جو صاحب آثار السنن نے قصداً کی ہیں ۔(مطبوعہ مطبع سعید المطابع ، بنارس ، صفحات 13) 12۔ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ( عربی ):مولوی ظہیر احسن شوق نیموی نے نصرت تقلید میں حافظ ابن حجر ( م 852ھ) کی مشہور کتاب ’’بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ‘‘ کی نہج پر حدیث کی ایک کتاب ’’آٖثار السنن ‘‘ مرتب کی ۔ جس میں اپنے"شعار تقلید" کی احادیث جمع کیں ۔مولانا عبدالرحمان مبارکپوری
[1] ایضاً ص431۔