کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 76
3۔امام ترمذی نے"وفی الباب" کے عنوان سے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ان کی مفصل تخریج کی گئی ہے۔اور ان احادیث کے الفاظ بھی اکثر مقامات میں نقل کئے گئے ہیں ۔احادیث مشار الیہا کے علاوہ اور دیگر احادیث کی تخریج کا بھی جابجا اضافہ کیاگیا ہے۔ 4۔تصیح وتحسین حدیث میں امام ترمذی کا تساہل مشہور ہے۔اس لئے ہر حدیث کی تحسین وتصیح کے متعلق دیگر ائمہ فن حدیث کے اقوال بھی نقل کئے گئے ہیں اور جن احادیث کی تصیح وتحقیق میں امام ترمذی سے تسائل ہواہے،اسکی تصریح کردی گئی ہے۔ 5۔اسنادی ومتنی اشکالات کے حل وایضاح کی طرف خاص طور سے توجہ کی گئی ہے۔ 6۔احادیث کی توضیح وتشریح میں بہت کچھ تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔اور جن مقلدین جامدین اور جن اہل ہوانے احادیث نبویہ کو اپنے مذہب ومسلک پر منطبق کرنے کے لئے غلط اور روایتی تاویلیں وتقریریں کی ہیں ،ان کی تاویلات وتقریرات کی کافی تغلیط وتردید کردی گئی ہے۔احادیث کے صحیح مطالب ومضامین جو سلف صالحین اور فقہاء محدثین کے نزدیک متعمد ومستند ہیں ،بیان کئے گئے ہیں ۔ 7۔اختلاف مذاہب کے بیان میں ہر مذہب کے دلائل بیان کرکے مذہب حق وراجح ظاہر کردیاگیا ہے اور اس کی نصرت وتائید کی گئی ہے۔اور مذاہب مرجوحہ وغیرصحیحہ کے دلائل کے شافی جواب دیئے گئے ہیں ۔ 8۔آثار السنن(شوق نیموی)وغیرہ کی جابجا لطیف اور قابل دید تنقید کی گئی ہے۔[1] 9۔تحفۃ الاحوذی میں غیر ضروری مباحث سے اجتناب کرتے ہوئے نفیس کتاب کی توضیح وشرح کا پورا اہتمام والتزام کیا گیا ہے۔[2] برصغیر کے اہل علم کے علاوہ عالم اسلام کے نامور اور مقتدر علمائے کرام نے اس کی تعریف وتوصیف کی ہے اور اس کو غیر معمولی طور پر پسندیدگی اورمقبولیت کی نظر سے دیکھا ہے۔مولانا عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں :’’هو ا حسن شرع الجامع الترمذي ظهرعلي وجه الارض لم تر العيون مثله‘‘ تحفہ الاحوذی کی کتابت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی(م1968ء) کے والد محترم مولانا حکیم محمد ابراہیم مرحوم ومغفور نے کی تھی۔(مجموعی صفحات 4 جلد 1626) 2۔مقدمہ تحفۃ الاحوذی(عربی):مولانا عبدالرحمان مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی کا ایک علیحدہ مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔اس مقدمہ میں کچھ مباحث ابھی نامکمل تھے کہ مولانا مبارکپوری نے اس دنیا سے رخت سفر باندھا۔بعد میں آپ کے لائق شاگرد مولانا عبدالصمد حسین آبادی(م1948ء) نے اس کی تکمیل کی۔یہ مقدمہ 17 ابواب اوخاتمہ پر مشتمل ہے اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری (م 1992ء) لکھتے ہیں ۔ پہلےباب میں 41 فصلیں ہیں ۔جن میں عام فنون حدیث،کتب حدیث ،ائمہ حدیث کے متعلق نہایت کارآمد اور ضروری فوائد جمع کردئے گئے ہیں اور دوسرا باب 17 فصلوں پر مشتمل ہے ۔جن میں خاص
[1] سیرۃ البخاری ص429۔430۔ [2] ایضاً ص429۔