کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 73
کی تھی ۔مدرسہ سے معمولی تنخواہ ملتی تھی اور اس کے ساتھ مطب کرتے تھے صبر و قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کردی۔1346ھ میں وفات پائی اور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے ۔[1] مولانا عبد الصمد حسین آبادی :۔ مولانا عبد الصمد احمد بن شیخ محمد اکبر رمضان 1322ھ میں موضع حسین آباد مضافات مبارکپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم مولوی حکیم محمد اصغر مبارکپوری (م1346ھ) سے حاصل کی۔ اس کے بعد جن اساتذہ کرام سے علوم دینیہ میں تحصیل کی ان کے نام یہ ہیں ۔ مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری مولانا عبد السلام مبارکپوری مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی (م1381ھ)اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م1342ھ) فراغت تعلیم کے بعد مختلف دینی مدارس یعنی مدرسہ اسلامیہ بڑوا مدرسہ دارالتعلیم مبارکپور مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ اور مدرسہ محمد یہ دیودیا میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ مولانا عبد الصمد حسین آبادی بلند پایہ عالم اور محدث تھے تدریس میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کابھی عمدہ ذوق رکھتے تھے ان کی تصانیف کے مطالعہ سے ان کے علمی تبحر اور حدیث اور متعلقات حدیث میں ان کی مکمل مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا عبد الصمد حسین آبادی کا سب سے برا علمی کارنامہ یہ ہے کہ مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری(م1353ھ)نے اپنی مشہور شرح تحفۃ الاحوذی کا ایک جامع و علمی مقدمہ لکھنا شروع کیا لیکن اس کی تکمیل نہ کر سکے اور دنیا سے رخصت ہوگئے مولانا عبد الصمدنے مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے منتشر اوراق کے نامکمل مباحث کو مکمل کیا اور بڑی محنت اور تحقیق و کاوش سے مرتب و مدون کیا اور اس کو اشاعت کے قابل بنایا ۔ مولانا عبد الصمد کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔ 1۔تائید حدیث بجواب تنقید حدیث 2۔شرف حدیث 3۔شان حدیث 4۔الفتوحات الرہانیہ 5۔تذکرۃ الاخوان بمنع شرب الدخان 6۔احوال الصحابہ 7۔ذم غناء ورقص وسر ور 8۔شرح سنن ابن ماجہ (عربی ناتمام) 9۔حق پرستی بجواب شخصیت پرستی 10۔فقہ حنفی پر ایک نظر 11۔ التبيان لما يجب معرفة علي اهل الايمان (عربی) مولانا عبد الصمد حسین آبادی نے 14/ربیع الاول 1367ھ/26جنوری 1948ء کوانتقال کیا۔[2] مولوی شاہ محمدسریانوی : مولوی شاہ محمدسریانوی نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دینی علوم کی تعلیم مولانا عبد الرحمٰن
[1] ایضاًص254۔ [2] ایضاًص164،163۔