کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 70
(م1324ھ)اور علامہ حسین بن محسن بن محسن انصاری الیمانی (م1327ھ)سے کی۔ طب کی تعلیم حکیم عبد الولی بن حکیم عبدالعلی لکھنوی سے حاصل کی۔[1] فراغت تعلیم کے بعد درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بنا یا اور صادق پورپٹنہ کے ایک دینی مدرسہ سے تدریس کا آغاز کیا اور 15سال تک اس مدرسہ میں تدریس فرمائی ۔اس 15سالہ تدریسی دور میں آپ نے اپنی مشہور کتاب تاریخ المنوال لکھی صادق پور پٹنہ سے آپ مدرسہ فیض عام مؤآگئے اور تین سال تک اس مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے اس کے بعد گونڈہ کے ایک مدرسہ میں چارسال تک پڑھایا۔ آخر میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی میں آئے اور اپنے انتقال 1342ھ تک تدریس فرماتے رہے ۔[2]مولانا عبد السلام مبارک پوری درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے بہت عمدہ مصنف اور اچھےنقاد تھے آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں 1۔اثبات الاجازہ لتکرار صلوٰۃ الجنازۃ 2۔اسلامی تمدن 3۔تصوف 4۔سیرۃ البخاری 5۔تاریخ منوال [3] مولانا عبد السلام مبارکپوری نے18رجب 1343ھ/ھ24فروری 1924ءکو دہلی میں انتقال کیا اور مبارکپورمیں دفن ہوئے۔[4]مولانا ثناء اللہ امرتسری (م1948ء)نے آپ کے انتقال پر لکھا تھا کہ : "آہ۔۔۔مولانا عبد السلام مرحوم !مولانا موصوف صحیح معنوں میں ایک عالم العلوم مدرس تھے مدرسین کی تلاش میں جب نظر پڑتی تو آپ ہی پر پہلے پڑتی"[5] مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ): شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ بن مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ مشاہیر علماء میں سے تھے آپ نے جن اساتذہ کرام سے علوم اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان میں آپ کے والد مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1241ھ)مولانا احمد اللہ محدث پر تاب گڑھی (م1263ھ) مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری (م1353ھ)اور مولانا حافظ محمد گوندلوی (گوجرانوالہ ) م1985ء) قابل ذکر ہیں ۔ 1945ء میں آپ دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فارغ ہوئے اور شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم مہتمم دارالحدیث رحمانیہ نے آپ کو مدرسہ میں مدرس مقررفرمایا ۔ مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری جامع ترمذی کی شرح تحفۃالاحوذی کی تکمیل سے پہلے نگاہ سے معذور ہوگئے تھے آپ کو شرح کی تکمیل میں ایسے لائق عالم کی اعانت کی ضرورت تھی جو فنون حدیث میں مکمل مہارت صدررکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا ادبی ذوق بھی عمدہ ہو۔ چنانچہ مولا نا عبد الرحمٰن مبارکپوری کی تحریک پر شیخ عطاء الرحمٰن مرحوم نے آپ کو دہلی سے مبارکپور بھیج دیا تاکہ تحفۃ الاحوذی کی تکمیل میں آپ مولانا مبارکپوری سے علمی تعاون فرمائیں ۔تنخواہ آپ کو دارالحدیث رحمانیہ سے ملتی تھی۔چنانچہ آپ نے 2سال مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری کے ساتھ بطور معاون کام کیا اور تحفۃ الاحوذی کی تیسری
[1] تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص158، 159۔ [2] ایضاً۔ [3] جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ۔ [4] تراجم علماء حدیث ہند ص399۔ [5] ایضاً ص400۔