کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 7
والے بھی اہل مغرب کے ایجنٹ ہیں دراصل کانفرنس کے محرکین کو عورت سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ اگر فی الواقع ایسا ہوتا تو کشمیر فلسطین چیچنیا ،بوسنیا کوسودا اراکان اور دیگر خطوں میں جبری عصمت دری کاشکار ہونے والی عورتوں کا مسئلہ بھی ایجنڈے پر موجود ہوتا ۔ اس طرح خواتین کے کئی اور بھی اہم مسائل تھے جو ان کی نظروں سے اوجھل رہے ان کی توجہ تو صرف خرافات پر مبذول رہی جس سے خود خواتین بھی پریشان ہوں اور معاشرہ بھی تباہی سے دوچار ہو۔ مغرب کی عورت تو ان پریشانیوں سے تنگ آکر اسلام کے سائے میں پناہ ڈھونڈھ رہی ہے مگر مشرقی عورت کو اسی تباہی کی راہ پر ڈالا جارہا ہے۔ خواتین کی تمام اداروں میں پچاس فیصد نمائندگی :بھی اسی طرح ایک ناقابل عمل تجویز ہے مثلاًاس حکم کے تحت جنرل پرویز مشرف صاحب نے بلدیاتی کونسل میں خواتین کی پچاس فیصد نمائندگی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی عدم شرکت کی صورت میں یونین کونسل میں ان کی چاروں نشتیں خالی رکھی جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یونین کونسل میں آٹھ افراد کی بجائے صرف چار (مرد) افراد سے کام چلایا جائے گا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ چند بڑے شہروں کو چھوڑکر قصبوں اور دیہات میں عورت کسی دفتر بینک ڈاک خانے ریلوے آفس وغیرہ میں نظر نہیں آتی ۔پھر یونین کونسل کے ممبر کی ذمہ داریاں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عموماً عورت ان سے بخوبی عہد ہ برآ نہیں ہوسکتی ۔اس سے ترقی کی رفتار بھی سست ہوگی ۔مگر ساتھ مخلوط معاشرت سے بہت سی نئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔مسلم ممالک کو تو چھوڑ ئیے خود مغربی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ امریکہ کے پورے دور میں اب آکر ایک خاتون میڈلن البرائٹ وزیر بن سکی ہے۔ اب تک کوئی خاتون امریکی صدر نہیں بن سکی۔امریکہ کے ایوان نمائندگان میں بھی عورتوں کا تناسب صرف 2فیصد ہے اور جرمن پارلیمنٹ میں صرف 7فیصد برطانیہ میں یہ تناسب صرف 3فیصد ہے اس طرح انتہائی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں مجموعی طور پر عورت کی شرکت کا تناسب صرف 12فیصد ہے۔تویہ پچاس فیصد کی سطح پر کیسے لایا جا سکتا ہے۔ایشیائی ممالک میں تو خواتین وزراء اعظم کی کثرت ہوگئی ہے مگر مغربی ممالک میں تو نقشہ اس سے بہت بدلا ہوا ہے۔ جب حقائق کی دنیا اس فریب کا پردہ چاک کر رہی ہے تو پھر زبردستی یو این او کے اس کفر پر مبنی یہودی نظام کو مسلم ممالک پر مسلط کرنا بہت بڑی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟ خاتون خانہ کے گھر یلو کاموں اور تولیدی خدمات پر محنت کا معاوضہ : یہ مطالبہ بھی انتہائی شرمناک ہے عورت تو اپنے گھر کی ملکہ ہے۔ مرد مشکل ترین کام کرتا ہے یعنی باہر کے گرم سرد موسم کی تلخیاں اور صعوبتیں برداشت کر کے کما کر اپنی محنت مزدوری عورت کے ہاتھ پر لاکر رکھ دیتا ہے کہ وہ اس کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرے اور گھر کا سارا نظم و نسق چلائے ۔کیا مرد اس کواپنا مزدور سمجھ کروہ رقم اس کے حوالے کرتاہے؟عورت اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے ان کو جنم دیتی ہے تو اس کی اپنی نفسیات تسکین