کتاب: محدث شمارہ 239 - صفحہ 68
تذکرۃ المشاہیر عبدالرشید عراقی جامع ترمذی کی عدم المثال شرح تحفۃالاحوذی کے مؤلف مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ [1867/ھ1283ء۔۔۔1935/ھ1353] مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری بن مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری محدث جید عالم فقیہ اور مفتی تھے علم حدیث میں تبحر و امامت کا درجہ رکھتے تھے ۔روایت کے ساتھ روایت کے ماہر اور جملہ علوم آلیہ و عالیہ میں یگانہ روزگارتھے قوت حافظہ بھی خداداد تھی حدیث اور متعلقات حدیث پر ان کی نظر وسیع تھی۔مولانا سید عبد الحی حسنی (م1341ھ)لکھتے ہیں ۔ كان ﻣﺘﻀﻠﻌﺎً ﻓﻲ ﻋﻠﻮم اﻟﺤﺪﺚ. ﻣﺘﻤﻴﱢﺰاً. ﺑﻤﻌﺮﻓﺔ أﻧﻮاﻋﻪ وﻋﻠﻠﻪ. وﻛﺎن ﻟﻪ ﻛﻌﺐ ﻋﺎل ﻓﻲ ﻣﻌﺮﻓﺔ أﺳﻤﺎء اﻟﺮﺟﺎل. فن جرح وتعدیل وطبقات المحدثين وتخرج الاحاديث[1] "علم حدیث میں تبحر علمی کا درجہ رکھتے تھے اور معرفت حدیث انواع حدیث وعلل میں ان کی نظروسیع تھی اسماء الرجال اور جرح و تعدیل طبقات محدثین اور تخریج احادیث میں ان کو کمال حاصل تھا۔ مولانا براہ راست عامل بالحدیث تھے صفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں ماوردبہ الکتاب والسنۃ پر ایمان رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و عمل سے بھر پورنواز اتھا ۔مدت ذہین ذکاوت طبع اور کثرت مطالعہ کے اوصاف و کمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا ۔[2]صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو علمائے ربانیین میں شمار کیا ہے۔[3]مولانا ابو یحییٰ امام خان نو شہروی (1966ء)لکھتے ہیں کہ۔ "فن حدیث میں آپ کا ترجمہ معمولی نہ تھا اور علماء میں سب سے زیادہ خوش اخلاق تھے رقیق القلب اور صاحب ایثار و کرم تھے۔[4] ولادت :مولانا عبد الرحمٰن1283/ھ1867ءمیں مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیداہوئے اعظم گڑھ یوپی(اترپردیش ) کا مشہور شہراور ایک مؤرخ اور ادیب و شاعر مولانا شبلی نعمانی (م1332ھ)کا تعلق بھی اعظم گڑھ سے تھا بقول مولانا سعید احمد اکبرآبادی (م1985ء) "اعظم گڑھ ایک بڑا مردم خیز خطہ ہے اس جیسے6 اور علاقوں کے سوتے خشک ہوگئے یا ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کی زرخیزی نہ صرف قائم ہے بلکہ توز افزاوں ہے"[5]اور بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضان تجلی ہے یکسر جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے ۔ اساتذہ :آپ نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم وفنون میں تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں 1۔حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م1330ھ) 2۔مولانا خدابخش اعظم گڑھی (م1333ھ)
[1] نزہتہ الخواطر ج8ص242،343 [2] تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص145۔ [3] نزہتہ الخواطر 343۔ [4] تراجم علمائے حدیث ہند ص404۔ [5] ماہنامہ برہان دہلی جون 1976ء۔